وہ آج خوش تھا ، بہت خوش . جتنا کوئی بھی دولہا اپنے نکاح کے دن ہو سکتا ہے اور پھر اسکی تو دلہن بھی اسکی من پسند تھی . گاؤں کی ہیر سیال وہ لے اڑا تھا . دوست بیلی اسکی قسمت پر رشک کر رہے تھے . سکول جاتی ہوئی وہ الہڑ سی نازک کلی ، نظروں کو ایسی بھائی کہ دل کی دنیا ہی الٹ پلٹ ہو گئی . پھر شوکے کے رشتے سے کس کو انکار تھا . پکا کوٹھا ، اکلوتا سپوت جس کے نہ کوئی آگے نہ پیچھے . الوؤں کے چپس کی ریڑھی لگاتا تھا . اس پر شکل بھی اچھی تھی . عمر ستائیس سال ، پری گل سے دس سال بڑا تھا تو کیا ہوا یہ تو بالکل معمولی فرق تھا .
اور پھر بھلا پری گل کی ماں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا .سات سلیس تھیں سینے پر رکھی ہوئیں تھیں ، ایک بوجھ تو کم ہوتا ، جھٹ ہاں کر دی . واویلا ایسا کے ایک ہفتے کے اندر ہی نکاح کر کے رخصتی دے دی . میدے اور سندو ر جیسی رنگت ، بڑی سیاہ آنکھوں والی پری گل کا ملکوتی حسن تو آج پریوں کو بھی مات کر رہا تھا . بوسکی کی قمیض ، تلے والا کھسا، گلے میں اجرک ڈالے بڑی بڑی مونچھوں کو بل دیتا شوکا دوستوں کے نرغے میں فخریہ سینہ تانے بیٹھا تھا .
" یارو ! ویسے بھابی ہے بڑی سوہنی ." ایک نے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہویے اپنے ہی انداز میں سراہا تو مونچھوں تلے لب جیسے کھل اٹھے .
" لیکن اب تمہیں بہت محتاط رہنا پڑے گا . سوہنی کڑیاں بہت اڑیل ہوتی ہیں ." یہ کوئی جل ککڑا تھا .
" اور بے وفا بھی ..." تیسرا با آواز بلند بولا .
" میں تو کہتا ہوں کے پہلے ہی دن سے اسے قابو میں رکھنا ، ایک بار اگر سر پر چڑھ گئی تو ساری حیاتی اپنا سر پکڑ کر روے گا ." پہلے نے مزید سمجھایا .
" اوے پتا ہے مجھے ایسا بھی زن مرید نہیں ہوں میں ." شوکا بد مزہ سا ہو کر وہاں سے اٹھ آیا ، لیکن پری گل پر نظر پڑتے ہی اسکا سارا ز عم بھک سے اڑ گیا ' بھلا اس کم عمر حسینہ کو وہ کیسے قابو میں رکھ پا ئے گا .