SIZE
2 / 24

" آپ کے ہاں اب تک سویا جا رہا ہے خالہ امی! ہمارے ہاں تو دوپہر کا کھانا بھی تقریباً پک چکا۔" وہ امی کی بھانجی تھی اور بڑی بھابھی کی سب سے چھوٹی بہن۔

" ہمارے ہاں تو خیر کام ہمیشہ ہی وقت کی پابندی سے ہوتا ہے، سب بہنوں کو شروع سے جلدی اٹھنے کی عادت ہے۔ بڑی بھابھی کو بڑا فخر ہو تا تھا اپنے گھر کی روٹین پر۔

زوبیہ آگے بڑھ کر خود ہی خالی بستروں کو تہہ کرنے لگی تو امی شرمندہ سی ہو کر دیبا کے سرہانے جا کھڑی ہوئیں۔

" بہت تنگ ہوں اس لڑکی سے اتنا سو کر بھی اس کا دل نہیں بھرتا' اب دیکھ لو' سب اٹھ چکے، مگر اسے ہوش نہیں ہے؟"

" رہنے دیں خالہ امی ! سونے دیں بے چاری کو میں تو بس ایسے ہی آ گئی تھی کہ دیبا اٹھی ہو تو۔۔۔ "

" اسے اپنا نیا سوٹ دکھا سکوں۔" بستر پر لیٹے لیٹے دیبا نے اس کی بات کاٹی تو وہ بُرا مان گئی۔

ایسی تو آفت والی طبیعت نہیں ہے میری اور تم جاگ رہی تھیں۔ یوں ہی بنی پڑی ہو کام سے بچنے کے لیے۔"

" میں کوئی جاگ واگ نہیں رہی تھی لیکن جب چار لوگ عین سرپر کھڑے ہو کر گفتگو فرما ئیں گے تو انسان کو اٹھنا ہی پڑتا ہے۔ اس نے ہتھیلی کی پشت کو آنکھ پر ملا' نیند ابھی بھی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی۔

" اب باتیں نہ بناؤ' جاؤ منہ ہاتھ دیکھ کر ناشتہ کر لو۔" امی ہدایت دیتے ہوئے واپس جا چکی تھیں، وہ منہ دھو کر واپس آئی تو زوبیہ نے دو ہی بستر تہہ کیے تھے۔

" کتنا برا لگتا ہے گیارہ بجے تک گھر کا یہ حال ہے۔ میری تو خیر کوئی بات نہیں مگر کوئی اور آ جائے تو۔۔۔ " زوبیہ نے اسے سمجھانا چاہا مگر اس نے حسب عادت کوئی اثر نہیں لیا۔

" دونوں بھا بھیاں بھی تو اٹھی ہوئی تھیں ۔ یہ باتیں تو ان کے سوچنے کی ہیں' پھیلاوا بھی سارا ان ہی کے بچوں کا ہوتا ہے۔" نازو بھا بھی پاس ہی تھیں۔ برا ماننے کی بجاۓ فورا اپنی غلطی تسلیم کرنے لگیں۔

" صحیح کہہ رہی ہے دیبا مگر کیا کریں۔ صبح سے بچوں کے ساتھ دسیوں چھوٹے چھوٹے کام نکلتے ہیں' ایک منٹ کی فرصت نہیں مل پاتی۔"

کچن سے امی اسے ناشتے کے لیے آوازیں دے رہی تھیں ۔ وہ جلدی جلدی سارے تکیے ، چادریں اسٹور میں رکھ کر کچن میں چلی گئی۔ زوبیہ نے نازو بھابھی کی طرف ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھا۔

" بہت بڑا دل ہے تمہارا آپا! کتنی خدمت کرتی ہو سب کی پھر بھی کسی بات کا برا نہیں مانتیں۔"