لکڑی کی ہری رانش کی جالیوں والے برآمدے میں یہاں سے وہاں تک پلنگ بچھے ہوئے تھے۔ کچھ خالی تھے ۔۔۔۔ جبکہ کچھ پر اب بھی دن چڑھے والی نیند کے مزے لوٹے جا رہے تھے۔
نہ سان نہ گمان' رات کے تیسرے پہراک دم ہی کہیں سے بادل آ کر برسے تو صحن میں ٹھنڈی ہوا میں میٹھی نیند سونے والوں کو بڑی افرا تفری کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے تیسے سارے پلنگ کھینچ کھانچ کر بر آمدے میں بچھائے گئے۔ آدھی نیند سے اٹھنے والے پڑوسی اور اس سارے ہنگامے میں بھی اطمینان سے لیٹے ہوئے بچوں کے لیے ٹھکانا میسر آیا تو بجلی غائب۔۔۔۔
بچے جو ابھی تک سوئے پڑے تھے چوں چاں کرنا شروع ہوۓ تو اور بھی کوفت۔
نازو بھابھی نے چھوٹی بیٹی کو دیبا کے پاس لٹایا تو ساتھ ہاتھ میں اخبار بھی پکڑا گئیں۔
" شاباش میری بہن ! ذرا دعا کو پنکھا تو کر دینا ورنہ اٹھ گئی تو بہت شور مچائے گی۔“
بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ بھی اس سے انکار نہ ہوسکا' نازو بھابھی نرم طبع تھیں' اپنی تمام تر بے مروتی کے باوجود وہ ان کا کہا مان لیتی تھی۔
" امی کہتی تھیں شکر کرو بڑی بھابھی خوش مزاج ہے ، ہوتی کوئی بد مزاج اکھڑ تو تمہارا گزارا مشکل تھا اس کے ساتھ ۔"
خود اپنے مزاج کے بارے میں بھی اسے کوئی خاص خوش فہمی نہیں تھی جو ان سے متفق بھی ہو جاتی' دعا کو مستقل پنکھا کرتے ہوۓ ایک آدھ بار اخبار چھٹ کر اس کے منہ پر جا گرا تو وہ روتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔
" اگر تم سے نہیں ہو رہا تو لاؤ' مجھے دے دو" اسے بھی اپنے پاس ہی لٹا لوں گی۔ نازو بھابھی نے کہا تو ساده
لہجے میں ہی تھا مگر دیبا کو شرمندگی سی ہوئی۔
" بھلا ایسی بھی کیا نا لائقی کہ ایک چھوٹی سی بچی کا چند گھنٹے دھیان نہ رکھا جا سکے۔“
نازو بھابھی نے اس کو واپس سونے کے لیے بھیج دیا۔ ان کا بستر بر آمدے کی بڑی محراب کے بالکل سامنے تھا، ہلکی ہلکی چلتی ہوا میں انہیں کچھ بھی جھلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں بڑے بچے برابر والے پلنگ پر' پھرامی' پھر چھوٹی بھابھی اور ان کے بچے اور پھر وہ' اس بار شرمندگی سے بچنے کے لیے وہ اٹھ کر ہی بیٹھ گئی' یہ شاید اس کی دعاؤں کا اثر تھا کہ لائٹ آ گئی۔ برآمدے میں لگے تینوں پنکھے ایک ساتھ چلے تو جان میں جان آئی' اخبار تکیے کے نیچے رکھ کر شکر کا کلمہ پڑھ کر جو وہ سوئی تو اب تک اٹھنے کا نام نہیں لیا تھا۔
زوبیہ کی آمد اسی کابلی اور بدسلیقگی والے دورانیے میں ہوئی۔