گوارا نہیں کہ کوئی تمہیں دیکھے بات کرے' جان نکل جاتی ہے' تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے جو میرا روم روم جھلسا دیتی ہے۔
" اذلان تمہیں کیا خوف ہے مجھے نہیں پتا مگر مجھے صرف تمہارے روٹھ جانے کا اور بچھڑ جانے کا خوف ہے' جو میری زبان پر تالے لگا دیتا ہے ورنه برا تو مجھے بھی بہت لگتا ہے جب تم مجھے بغیر کسی دوش کے بغیر کسی خطا کے اتنی بے دردی سے لعن طعن کرتے ہو۔"
وہ یہ ساری باتیں کرنا چاہتی تھی مگر کہہ دینے کی کوشش میں مائرہ کے نازک لب محض کپکپا کر رہ جاتے اور محبت ہر بار مائرہ کا سر اپنے آہنی شکنجے میں لے کر اپنے قدموں میں جھکا دیتی اور مائرہ اپنی عزت نفس کا خون ہوتا دیکھتی رہتی کمزور پڑتی رہتی اور جھکتی رہتی۔
مائرہ اور اذلان شاہ ایگزام کے بعد آج کل فارغ تھے رابطہ فون پر ہی ہوتا تھا۔ اذلان شاہ اپنی امی کو اس کے گھر بھیجنے کے لیے اصرار کر رہا تھا مگر نجانے کیوں مائرہ اپنی امی سے اذلان کا ذکر نہیں کرپا رہی تھی۔ اس دن مائرہ اپنے کمبل میں لپٹی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب اسلام آباد سے اس کے ماموں کرنل ریاض کی کال آ گئی۔ مائرہ نے لپک کر فون اٹھایا اور ماموں سے باتیں کرنے لگی وہ اپنے ماموں کی بہت لاڈلی تھی۔ ماموں کی کوئی بیٹی نہیں تھی صرف دو بیٹے ہی تھے اس لیے ماموں اسے سگی بیٹی کی طرح محبت کرتے تھے۔
" بیٹا تمہاری امی کہاں ہیں۔" ماموں نے پوچھا۔
" اپنے کمرے میں ہیں۔"
" موسم کیسا ہے لاہور کا؟" انہوں نے پوچھا۔
" سردی کی شدت بڑھ گئی ہے جاتی ہوئی سردیاں اپنا رنگ ڈھنگ دکھا رہی ہیں۔" وہ کھلکھلائی
" ہاں بیٹا ورنہ گرمیوں کی آمد آمد ہے ' ٹھنڈ کی کوئی تک نہیں بنتی' لاہور میں تو ان دنوں میں موسم نارمل سا ہوتا ہے۔ اچھا بیٹا اپنی امی کو تو فون دو ذرا'