میں غیر لوگ ان کے سامنے سراٹھائیں اور جائیداد میں سے اپنے حصوں کا مطالبہ کریں زمینوں کا بٹوارہ ہو۔
عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی اگر کسی مجبوری کی بنا پر خواتین کو گھر سے باہر جانا بھی پڑتا تو ٹوپی والے پرانی طرز کے برقعے اوڑھ کر گھروں سے نکلتی تھیں۔ برقعوں میں ملبوس خواتین کی عمر وغیرہ کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا کیونکہ وہ سر سے پاؤں تک ڈھکی چھپی ہوتیں حتی کہ ان کے ہاتھ بھی دستانوں میں چھپے ہوئے ہوتے۔
سید اذلان شاہ اور مائرہ نثار اکھٹے کاج میں بی۔ ایس سی کررہے تھے۔ مائرہ کے والد نثاراحمد ابوظہبی میں تھے۔ مائرہ کا ایک بھائی شہرکا جانا مانا وکیل تھا جبکہ دوسرا بھائی ڈی۔ ایس۔ پی تعینات تھا۔ مائرہ کا گھرانہ خوشحال بھی تھا اور روشن خیال بھی۔
مائرہ اور اذلان شاہ کی دوستی کالج میں ہی ہوئی تھی اور دوستی دھیرے دھیرے محبت میں بدل گئی۔ اذلان شاه بظاہر تو خوش شکل لڑکا تھا اور ذہین بھی بلا کا تھا۔ مگراس کی ذات کی خامی یہ تھی کہ وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ گردانتا ہی نہیں تھا۔ حد سے زیادہ خود پسندی اور زعم۔۔۔۔ جبکہ مائرہ بہت سلجھی ہوئی طبیعت کی حامل لڑکی تھی۔ ذہانت' رکھ رکھاؤ اس کی ذات کے اعلا ترین وصف تھے۔ صلح جُو اور نرم خُو بھی تھی۔ سو اس کے بہت سارے معاملات میں اذلان شاہ سے ہم آہنگی نہیں ہو پاتی تھی۔ ایسی جگہوں پر وہ مصالحت کی راہ اختیار کر لیتی تھی بلاوجہ بھی جھک جایا کرتی تھی۔
جو بھی تھا اذلان شاہ سے مائرہ کو محبت بہت تھی اور محبت کی تابعداری مائرہ نا چاہتے ہوۓ بھی کر جاتی تھی۔
بارہا اسے شدت سے احساس ہوتا کہ وہ ایسی مجرم ہے جو بغیر جرم کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ اذلان طیش کے عالم میں مائرہ پر یوں برس رہا ہوتا کہ مائرہ کو بھی کبھی لگتا کہ بہت ہو گیا اب اور نہیں' اسے اپنی عزت نفس دو کوڑی کی محسوس ہونے لگتی۔
." سید اذلان شاہ کی تم محبت ہی نہیں عزت بھی ہو' کسی طور بھی مجھے