Pages 10
Views573
SIZE
2 / 10

کرنا۔" اس وقت وہ دونوں کالج کاریڈور سے گزر رہے تھے جب اذلان نے دو ٹوک کہہ دیا اور تیز قدموں سے مائرہ کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

" اذلان رکو پلیز " وہ بھی لمحے کے توقف کے بعد اس کے پیچھے بھاگ اٹھی اور اس کا بازو پکڑلیا۔

”چھوڑو میرا ہاتھ ' مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔" اذلان نے بے رحمی سے مائرہ کا ہاتھ جھٹک کر اپنا بازو چھڑایا۔

" کیا ہو گیا ہے آخر' اتنی معمولی سی بات پر جھگڑا کر رہے ہو تم مجھ سے'

ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔" مائرہ رو دینے والی ہو رہی تھی ' اذلان کا رویہ' اس کی بے اعتنائی مائرہ برداشت کر ہی نہیں سکتی تھی اب تو وہ انتہائی سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

" یہ معمولی بات ہے تمہاری نظر میں ' بتاؤ مجھے۔" وہ غصے سے کھولتا ہوا واپس مڑا اور تن کر مائرہ کے سامنے کھڑا ہو گیا قہر آلود نظریں خوں خوار لب ولہجہ' مائرہ بس چپ ہوگئی اس وقت اسے خاموش رہنا ہی مناسب لگا تھا ' اذلان غصے میں تھا اگر وہ بھی دوبدو مقابلہ کرتی تو جھگڑا طول پکڑ جاتا۔

" اچھا ریلیکس ہوجاؤ ائندہ خیال رکھوں گی ارسلان کے سلام کا جواب بھی نہیں دوں گی بس اپنا موڈ ٹھیک کرو پلیز۔" مائرہ ملتجی لہجے میں بولی۔

مائرہ نے دیکھا کہ اذلان کے تنے ہوۓ عضلات ڈهیلے پڑ گئے' دونوں ساتھ چلتے کالج گیٹ تک آۓ ۔ اذلان گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولنے لگا روز مائرہ کو اس کے گھر ڈراپ کرتا تھا۔

" بات کرو نا' کہا نا ائندہ خیال رکھوں گی' احتیاط برتوںگی۔" مائرہ نے یقین دلایا۔ " یہ مت بھولا کرو کہ تم سید اذلان شاہ کی محبت ہو۔“ازلان کے لہجے میں زعم سا بھرا تھا' ہمیشہ اپنا نام جما جما کرادا کیا کرتا تھا ' شاہوں کا بیٹا ہونے پر گھمنڈ تھا وہ جب بھی اپنا نام آپ لیتا تو ایک خودی کا سرشاری کا احساس اس کے بدن میں سریے فٹ کر دیتا۔ خود پسندی کی انتہا تھی۔

" مجھے نہیں پسند کہ تمہیں کبھی ہوا بھی چھوئے کجا کہ کوئی مرد تم سے بات