" چھوٹے چاچو فری ہوں گے چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔" ٍیہ صلاح مروا کی تھی' وہ چیزیں سمیٹتی چاچو کے کمرے میں پہنچ گئی تھی' جہاں چاچو دادا کے حکم پر نواڑی پلنگوں کی قطار لگاۓ انہیں بننے میں مصروف تھے' جھاڑ پونچھ بھی انہوں نے خود ہی کی تھی' صاف ستھرے پایوں والے پلنگ کہیں سے بھی پرانے نہیں لگ رہے تھے' صفائی کرنے والے ماہر ہاتھوں نے انہیں چمکا دیا تھا۔
حماد' ذیشان اور فری بڑی تیز طرار بھابی کے بچے تھے اور درمیان والی چلتر فرحین بھابی کی مروا اور سلمان پانچوں قطار بنائے کھڑے تھے جو باری باری ان کی منتیں کیے جا رہے تھے کہ انہیں آئس کریم کھلانے لے جایا جائے مگر وہ شام کا وعدہ کر کے دوبارہ کام میں مگن ہو گئے تھے۔ گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ کمروں میں مچھر گھس کرراگ راگنیاں سنانے کی تیاری کر چکے تھے اور ابا جی کو ساری چارپائیاں سارے پلنگ تیار چاہیے تھے' ایک دم تیار۔ وہ صبح سے برس رہے تھے کہ کسی کو خیال ہی نہیں کہ سب باہر صحن میں کیسےسوئیں گے' نہ پنکھے صاف کیے اور نہ چارپائیاں ٹھیک کی ہیں۔
"بد تہذیب اولاد۔" وہ غصے سے دھاڑے۔
دادا جی کو غصہ ہروقت آتا تھا اور بے حد آتا تھا۔
چھوٹے چاچو ہمیشہ ان کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھتے تھے' آج بھی اٹھے تھے اکیلے اسٹور سے سارے پلنگ نکالے اور کام شروع کر دیا' کوئی نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کھانا بھی کھایا تھا کہ نہیں۔ سب کو یہ نطر آ رہا تھا کہ