آدھ کلاس ہی لے ڈالے۔ پھر جن دنوں اس کا ایڈمیشن ہو چکا تھا اتفاق سے ٹھیک انہی دنوں میں وہ ایک شام مکمل فراغت پا کے اپنے کمرے میں اپنی ادھوری کتاب پڑھنے بیٹھا تھا کہ وہ آ گئی۔ کچھ گھبرائی اور کچھ روئی روئی سی۔ اس کے ہاتھوں میں اسکیچ بکس کا ڈھیر تھا کہ وہ نازک سی لرکی ان کے نیچھے دب گئی تھی۔
" مجھے آپ سے فیور چاہیے تھی۔" نہ سلام نہ دعا۔ نجانے کتنے مہینوں کے بعد وہ اس سے مخاطب ھوئی تھی۔ وہ روٹھی روٹھی سی تھی۔
" آؤ شہر بیٹھو۔" کتاب اس نے ایک طرف رکھ دی۔
" میں بس یہ اسکیچ بکس دینے آئی ہوں آپ انہیں سنبھال لیں ' میں جب مناسب سمجھوں گی ' انہیں لے جاؤں گی۔ "اس نے بدقت بات مکمل کی اور اپنی اسکیچ بکس کو ٹیبل پر گرا دیا۔
" کچھ ہوا ہے؟" ہوا ہے کیا؟ مجھے بتاؤ' بیٹھ کے بات کر لیتے ہیں۔"
سامان اٹھائے چل پڑی۔رمیض نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا جسے اس نے نظراندازکردیا۔
" آپ پلیز کسی کو مت بتائیے گا۔"
" ارے یہ کونسا دنیا کے نوادرات میں سے ہیں کہ انہیں کوئی چُرا لے گا۔" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھاجس پہ شہر کی آنکھوں میں واضح برہمی در آئی تھی۔
" میری دنیا کے نوادرات میں سے ہی ہیں۔" پہلے کی نسبت وہ کچھ سختی سے بولی۔
" اوکے اوکے ۔۔۔ ائی ایم سوری۔" اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوۓ فورا اپنی غلطی تسلیم کر کے اس کا اثر زائل کرنا چاہا۔ میں انہیں بہت سنبھال کر رکھوں گا اتنا ہی جتنا ان کو سنبھالنے کا حق ہے۔"
ایک اطمینان تھا جو اس نے شہر کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ ممنونیت ' احسان مندی ' پھروہ تیزی سے پلٹ گئی۔
اور اس دوران وہ رضائی میں دبکے روشاک کودیکھ نہ سکی جو رضائی میں سے ہلکی درزبنا کر بڑی دلچسپی سے اسے یوں رونے کے بعد اب سوں سوں کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کے نکلتے ہی رضائی سے منہ باہر نکالے حلق پھاڑ پھاڑ کر ہنسنے لگا۔ "شرم کر کچھ۔۔۔" رمیض نے تاسف سے سرہلایا۔ شرم اور وہ کرتا؟ اس سے بہتر تھا کہ رمیض توبہ کر لیتا اور رمیض نے توبہ ہی کی پھر۔۔۔۔۔۔
" اُف۔۔۔ اُف۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔۔ میں تو قسم سے شرم کر کے ہی اتنی دیر خاموش رہا۔ اب اور شرم نہیں ہو پا رہا ہے مجھ سے۔۔۔" وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوا جا رہا تھا۔ رمیض شہر کی اسکیچ بک دیکھنے لگا۔ چند ماہ پہلے دیکھے گئے اور اب کے بنائے گئے اسیکچز میں بہت فرق تھا۔
اور اگلی رات ہی معاملہ ان پر کھل گیا جب رات کے کھانے پر وہ سب چاچا جی کے ہاں دعوت پر مدعو تھے۔ ڈائننگ ٹیبل پر سب معمول کے مطابق تھا سوائے چاچا جی کے موڈ اور شہر کی صورت کے۔۔۔۔
" مبارک ہو رمیض بھائی ایڈمیشن کی' مگرخالی خولی مٹھائی سے کام نہیں چلے گا۔ ٹریٹ دینا پڑے گی۔" مہر ماہ اسے دیکھتے ہی شروع ہو گئی تھی۔ وہ مسکرا دیا۔