" پسند۔۔۔" وہ اس لفظ پر چیخ ہی پڑا تھا ۔
" پسند بہت عام لفظ ہے ان کے آگے ۔ یہ بے مثال ہیں۔"
" سچ؟" وہ اتنی بہت ساری تعریف پہ پھٹنے والی تھی۔
" شہر تم نے یہ سب کہاں سے دیکھا؟"
" اس میں دیکھنے جیسا کیا ہے؟ یہ سب بنانا تو بہت ہی آسان ہے ۔ میں پورا دن بس یہی تو کرتی ہوں۔" اور اپنا اتنا اہم راز یوں افشا ہونے پہ اس نے لبوں پر ہاتھ رکھ لیا۔
رمیض اسے گھورنے لگا۔ " اگر تم اتنا شاندار کام نہ کر رہی ہوتیں تو آج تمہاری خیر نہیں تھی۔" " تو کیا ڈیزائنرزبھی ایسے اچھوتے خیالات کو کاغذ پر اتارتے ہوں گے۔" وہ پُر جوش تھی۔
"ایسا ہی کچھ ہوتا ہوگا۔"
"مطلب میں ڈیزائنر بن گئی؟" اب کی بار دبی دبی سی چیخ اس کے حلق سے بر آمد ہوئی تو قہقہہ رمیض کے حلق سے۔۔۔۔
"الُو! اایسے نہیں بن جایا کرتے ڈیزائنر۔"
" تو پھر کیسے؟" شہر نے باقاعدہ برا سامنہ بنا لیا۔
" اس کے لیے پڑھنا پڑھتا ہے' کام کرتا پڑتا ہے' محبت کرنا ہوتی ہے جیسا کہ۔۔۔۔ اس کی بات اس نے بیچ میں کاٹ دی۔
" یہ اچھے نہیں ہیں کیا؟ ابھی تو آپ انہیں بے مثال کہہ رہے تھے۔ اب مثالیں کہاں سے آنے لگیں؟" اس ے بُرا لگا بلکہ بہت بُرا۔
" شہر! یہ بہے اچھے ہیں مگر تمہاری عمر کے حساب سے ان میں بہتری کی گنجائش ہے۔ تمہیں ان پر محنت کرنا ہو گی۔ انہیں معیاری بنانا ہو گا۔" شہر جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹنے لگی۔ منہ تھا کہ غبارے سا پھولا ہوا تھا' آنکھیں تھیں کہ بہنے کو تیار۔۔۔ وہ سامان اٹھاۓ چل پڑی۔
" شہر!" وہ نہیں جانتا تھا کے وہ اس بارے میں اس قدر حساس ہو گی' ورنہ جھوٹا ہی سہی' اسے دلاسا دے دیتا۔
وہ پل بھر کو رکی' مڑ کر اسے دیکھا گہری سانس لی اور اور آنسوؤں کو روک کر بولی۔
" میں یہ سب کروں گی جو آپ نے کہا' وہ سب' مگر میں ڈیزائینر ہی بنوں گی۔"
رمیض حیرت سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور وہ جو ہمیشہ اپنی اسکریپ بُک اور اسکیچ بُک اٹھاۓ تایا ابو کے ہاں پائی جاتی تھی' اس دن کے بعد سے رمیض نے اسکو کبھی اسکیچز بناتے ہوۓ نہیں دیکھا۔ وہ اسکیچز بنانا چھوڑ چکی ہو گی' یہ خیال رمیض کو چھوڑ دینے کی ضرورت تھی کہ وہ شہر ماہ تھی' اکھڑ' ضدی۔۔۔۔
رمیض کو آتے جاتے وہ نظر آ جاتی تھی' کبھی تیرس پر کبھی لان میں ' تہ کبھی سیڑھیوں میں' وہ اسے دیکھ کر ان دیکھا کر دیتی۔
رمیض بھی ان دنوں اپنے انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں بے حد مصروف تھا' سووقت نہ نکال سکا کہ ایک