" ماضی اسی قابل ہوتا ہے ک اس کو بُھلا دیا جاۓ۔" اس نے جتنے پیار سے اپنے شانے پر آتے بالوں کو جھٹکا تھا ' اتنے ہی پیار سے اسے لا جواب کیا تھا۔
" دیکھو ۔۔۔۔ وہ سامنے' وہان وہ سب موجود ہیں۔" نفرت سلگنے لگی۔ شہر ماہ کو یوں اس کا سلگنا بہت بھایا تھا' وہ اس کی خصلت تھی جو وہ دوسروں کو منتقل کرتی تھی' شہر ماہ کو اس کو اس تک ہی رکھتے ہوۓ خود کو بچانا تھا۔
" وہ سب میرے بلانے پر ہی یہاں موجود ہیں۔" اس نے بھی دیکھے بغیر ہی جواب دیا۔ دیکھنے کی ضرورت بھی کیا تھی بھلا؟ دیکھے بنا بھی وہ جانتی تھی کہ کون کہاں کھڑا' بیٹھا ہے۔
" انہوں نے تمہیں رد کیا؟"
" مجھے نہ یاد ہے اور نہ ہی پروا۔" شانے اچکاتی وہ لا پروا سی بن گئی۔
" اور وہ سب وہاں بیٹھے ہیں ' جنہوں نے تمہاری تذلیل کی۔" اس نے ان سب کی جانب اشارہ کیا۔
" ذلت رب نے اپنے پاس روکے رکھی' اور مجھے عزت سے نوازا۔" وہ ہنوز لا پرواہ بنی رہی' جیسے وہ بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہیں۔
" ان میں سے کسی نے تب تمہارا ساتھ کیوں نہ دیا؟ جو اب ساتھ نبھا رہے ہیں۔" وہ بھڑک بھڑک کر جلنے لگی اور اس کا چہرا کھلنے لگا۔
شہر ماہ نے سامنے کی نشستوں پر بیٹھے سب پر نگاہ ڈالی اور۔۔۔۔۔ایسے مسکرائی جس پر سب مر مر جاتے۔
" نہ کسی نے مجھے اٹھانا تھا' نہ کوئی مجھے گرا پایا۔ نہ میں رکی' نہ میں جھکی۔"
وہاں بہت شور سا تھا' تالیوں کی گونج ' سُر بکھیرتا ساز' اور دور گونجتی آوازیں۔۔۔۔ انہی آوازوں میں اس کے اپنوں کا نام گونجا۔
" ان کا حوالہ آج تم بن رہی ہو' جو کبھی تمہارا حوصلہ نہ بن سکے ۔" ایک مکروہ قہقہہ۔۔۔۔۔ گونجا۔ جو پہلے اس کا مذاق بنا رہی تھی' اب خود مذاق بنتی جا رہی تھی۔
" وہ ان کی بد قسمتی رہی ہو گی شاید۔۔۔ یہ میری خوش قسمتی ہے یقینا"۔ وہ بھرپور انداز سے مسکرا دی۔
اس کی نفرت۔۔۔ نے اسے حیرت سے دیکھا۔
" تم نے یہ کہاں سے سیکھا شہر ماہ ۔۔۔۔ جب تک میں تم میں تھی' تم یہ سب نہیں جانتی تھیں۔" حیرت کی کوئی ینتہا تھی تو " وہ" تھی۔ اسٹیج پر اس کا نام پکارا جا رہا تھا۔ شہر ماہ ۔ اس کا جانا اب فرض تھا اور جواب دینا اس پہ قرض دونوں کی ادائیگی واجب تھی۔
" تخلیق کے اصولوں میں پہلا اصول ہے محبت' تخلیق محبت بنا ادھوری اور تخلیق کار اپنی تخلیق بنا اور سب سے بڑا تخلیق کار وہ رب ہے جو ہر تکلیق کار کو محبت سے یہ سب سکھاتا ہے۔تمہارے ہوتے میں یہ سب کیسے سیکھ سکتی تھی۔ جہاں نفرت ہو' وہاں پھر محبت کا کیا کام؟"
ایسا پیارا جواب وہ نہیں دے سکتی تھی۔ یہ وہ نہیں تھی' یہ وہ ہو ہی نہیں سکتی تھی' سالوں پہلے کی روتی بسورتی' بد دعائیں دیتی' نفرتیں لٹاتی لڑکی'وہ تو بری شان سے بڑھ رہی تھی۔ اس کی نفرت' وہیں پیچھے رہ گئی تھی' وہیں کہیں ماضی میں۔۔۔
شہر ماہ نے مڑ کر دیکھا، وہاں اب کوئی نہیں تھا۔