SIZE
1 / 23

زندگی جب اختتام پزیر ہو

میں خدا کے سامنے کھڑی ہوں

اور امید کروں کے کوئی صلاحیت

اب مجھ میں باقی نہیں رہی

اور خدا سے کہہ سکوں

میں نے وہ سب لے لیا' جو تو نے دیا تھا۔

وہ سہج سہج قدم رکھتی لڑکی اچانک رکی اور اپنی پھولی ہوئی جالی دار فراک کو ایک جانب سے ہلکا سا اٹھاۓ ' دوسرے ہاتھ کو آسمان کی جانب بلند کرتے وہ " نے" میں گم ہو گئی۔ اس نے کچھ نہیں چھپایا۔ اس نے اپنے ہاتھ اور جھولی اللہ کو دکھانا چاہی جو ہر طرف سے خالی تھی۔ وہ آدم میں سے تھی تو آدم ہونے کا حق ادا نہ کرتی کیا؟ اپنے ہونے کے وجود کو تلاش نہ کرتی کیا؟

وہ آج وہاں موجود تھی۔ اس کے سامنے' جسے وہ سفر کے اغاز پہ ' اولین دنوں میں ہی ' ایک کنویں میں دھکیل چکی تھی۔ جسے وہ ساتھ لیے وہ کبھی آگے نہیں بڑھی تھی۔ نہ اسے یاد کیا' نہ یاد آنے دیا' مگر وہ سالون بعد بھی اسے ڈھونڈتی اس تک آ پہنچی تھی۔

یہاں۔۔۔ جہاں وہ کھڑی تھی' یہاں اسے نہیں ہونا چاہیے تھا' پھر بھی وہ یہاں موجود تھی۔ مسکراتے ہوۓ ' اس کا مذاق اڑاتے ہوۓ وہ اس کا امتحان بن کر آئی تھی' اس نے بھی امتحان ہی دیا پھر۔۔۔۔

" میں تو تمہیں دفنا آئی تھی۔" وہ اس کی موجودگی پہ حیران تھی اور اس نے اپنی حیرت چھپانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ وہ قہقہہ لگا کے ہنس دی ۔

" تو میں تمہیں اتنے برس یاد رہی۔" اس کے پہچاننے نے اسے مسرور کیا تھا۔

" انسان جس کا قاتل ہو ' اسے کبھی بھول سکتا ہے کیا؟"اس نے نفرت سے اسے دیکھا اور "نفرت" نے اسے محبت سے۔

صرف " وہی " کیوں وہاں تھی۔ اس کے اندر تو بہت کچھ رہا تھا۔ شاید وہ باقی سب کے مقابل اس میں زیادہ رہی تھی۔ جتنی وہ زیادہ رہی تھی' اتنی مضبوط کھڑی تھی۔

" یہ لمحہ تو وہ ہے جس کا تم نے سالوں انتظار کیا ہو گا۔ تم اس لمحے کو میرے بغیر کیسے گزار سکتی تھیں؟ میں اس لمحے میں گزرا ہوا ہر لمحہ تمہیں لوٹانے آئی ہوں۔ وہ سب تم بھول رہی ہو۔" وہ جو بھیانک تھی ' کیسی خوبصورت بن کر سامنے آئی تھی۔

" میں ماضی کا کوئی حصہ نہ حال میں چاہتی ہوں نہ ہی مستقبل میں۔۔۔" وہ سخت لہجے میں کہتی پلٹی۔

" تم ماضی کو کیسے بھول سکتی ہو؟" اسے جیسے اس پر غصہ آیا۔