عاصی سیاہ دھبے جیسی سیاہ ہو جاتی۔
" فرقان بھائی جان۔۔۔ وہ تو ایسے نہیں تھے بھابی!"
" وہ بھائی ایسا نہیں ہے۔۔۔ باپ ایسا نہیں ہے پر شوہر ایسا ہی ہے عاصی۔۔۔! سارے شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں۔"
" سارے بھابی؟"
" ہاں سارے۔۔۔ میری چھوٹی بہن جس کی شادی میں تم بھی گئی تھی۔ شادی کے پہلے ہی دن شوہر نے چٹیا پکڑ کر سر دیوار میں مار دیا۔۔۔ کئی دن ہوش میں نہیں آئی تھی۔۔۔ اماں تو بات ہی چھپاتی رہیں۔"
" بھابی۔۔۔ رخشندہ آپی تو اتنی اچھی ہیں۔۔۔ اتنی خوبصورت۔۔۔"
" یہ مرد ذات ایسی ہی ہوتی ہے۔۔۔ اس کے شوہر نے کہا۔ میرے جوتے صاف کر دو۔ اس نے صرف اتنا کہا۔ ابھی تھوڑی دیر میں کر دیتی ہوں۔۔۔ کہتا فورا"کیوں نہ کیے۔۔۔ اتنا مارا اتنا مارا۔۔۔ کہ کیا بتاؤں۔۔۔ اور کیا' کیا بتاؤں تجھے۔۔۔ مجھے تو وحشت ہوتی ہے۔"
وحشت عاصرہ کو بھی ہونے لگتی۔ اس کا دم سا گھٹنے لگتا۔۔۔ سالوں سے بھائی کے گھر کی چار دیواری میں ہی رہتی رہی تھی۔۔۔ نہ دنیا دیکھی تھی نہ' دنیا داری۔۔۔ اس کی چت بھی بھابی تھی پٹ بھی۔۔۔ وہ کیسے رماز(پہیلی کہنے والی) بھابی کی رمز جان جاتی۔
سہم سہم جاتی۔۔۔ دہلی دہلی رہتی۔
گاہے بگاہے بھابی تیر چھوڑتی رہتی۔
" میری کولیگ کی بہن کی شادی ہوئی تھی پچھلے مہینے۔۔۔ خدا دشمن کو ایسے دن نہ دکھاۓ جو اس کی بہن نے دیکھے۔۔۔ ہفتے کے اندر اندر طلاق دے دی۔۔۔ طلاق سے پہلے کمرہ بند کر کے چمرے کی بیلٹ سے مارا۔۔۔ کہتا تھا کہ بد کردار ہے۔
" کسی لرکے کے ساتھ چکر تھا لڑکی کا؟"
" چکر وکر نہیں تھا۔۔۔ پانچ وقت کی نمازی تھی تمہاری طرح۔۔۔ دنیا کا پاک باز سے پاک باز مرد بھی شک سے پاک نہیں ہوتا عاصی۔۔۔ اپنے بھائی کو ہی دیکھ لو۔۔۔ جب فون کرتا ھے' ہزار ہزار سوال پوچھتا ہے۔۔۔ کیا میں نہیں جانتی۔۔۔ شک کرتا ہے مجھ پر۔۔۔ کہاں گئی تھیں' کس کے ساتھ گئی تھیں۔۔۔ کس کے ساتھ تھیں۔۔۔ اور اپنے بھائی سے ذکر نہ کرنا۔ مجھے بہت گندی گندی گالیاں دیتا ہے۔بہت دل دکھتا ہے میرا۔ کاش میں نے شادی نہ کی ہوتی۔۔۔ اندر سے تو مر چکی ہوں میں۔"
عاصرہ فون پر بھی اپنے بھائی سے بات کرنے سے کترانے لگی۔
" بھائی کا فون آیا ہے۔ تجھے بلا رہا ہے' بات کر لے۔" سنتے ہی اس کا رنگ سیاہ ہو جاتا۔۔۔ فرقان اتنی باتیں کرتا رہتا اور وہ ہوں ہاں کر کے بھاگنے کی کرتی۔۔۔ رہ رہ کر اسے یہی خیال آتا کہ اس کا بھائی ایسا گندا ہے کہ عافیہ جیسی نمازی بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔
نمازی بھابی نت نئے قصے ' کہانیاں اسے سناتی رہتی۔۔۔ وہ رات رات بھر نہ سو سکتی۔
" میری دور کی ایک خالہ ہیں۔۔۔ ان کی بیٹی کو اس کے شوہر نے جلا ڈالا'توبہ! بڑا کہرام مچا تھا عاصی۔۔۔ کسی چھوٹی سی بات پر میاں' بیوی میں جھگڑا ہو گیا۔۔۔ اور اس نے ڈوپٹے کے بل دے کر پہلے اس کا گلہ دبایا ' جب مر گئی تو تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔۔۔ بس کچھ نہ پوچھو ۔۔۔ عاصی! میں تو دہل گئی۔۔۔ بس دعا کرتی ہوں ' تیری کبھی شادی نہ ہو' اگر میری کوئی بیٹی ہوتی تو قسم سے کبھی اس کی شادی نہ کرتی' مر جاتی'اسے اس عذاب میں نہ ڈالتی۔"
اس عذاب میں پھر عاصرہ بھی کیوں جاتی۔
فرقان آیا' پھر سے عاصرہ کے رشتے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگا۔
" یہ دیکھ تیرے بھائی نے رات مجھے مارا ہے۔"
کہیں رات میں وہ غسل خانے میں گر گئی تھی۔
" کیوں مارا بھائی نے؟" وہ نئے سرے سے سہم گئی۔
" وہی شک۔۔۔ رات کو اپنے بھائی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ کہتا ہے کوئی اور تھا۔۔۔ میرا سر دیوار پر دے مارا۔"
" مجھ پر بھی کرتے ہیں شک؟"