کبھی ایک لحظے کے لیے وہ سر جھکا کر اپنے پیروں کے نشانات پر تو گور کرے کہ وہ کس پاتال کی طرف جا رہے ہیں۔
کبھی تو وہ سر اٹھا کر آسمان والے کو دیکھے اور اس کی مانے۔
" پر انسان گھاٹے کا سودا ہی کرنے والوں میں سے ہے۔"
اس کا سودا۔۔۔ "عاصرہ " بستر پر آہ و بکا کر رہی ہے۔
اس کا گھاٹا "فیروزہ بستر پر بے حس ہوتا جا رہا ہے۔
اور کبھی تو انسان اپنے " سودے" اور اپنے "گھاٹے" کے بارے میں سوچے۔۔۔ کبھی تو۔۔۔
وہ افس جاتی۔۔۔ ورنہ سیر سپاٹے کرتی رہتی۔۔۔ یہاں جا' وہاں جا۔۔۔ گھر کی طرف سے مکمل بے فکری۔۔۔ اس کی زندگی اب ہی تو سہل ہوئی تھی' زندگی سے اب ہی تو اس نے لطف لینا شروع کیا تھا۔ پہلے زمہ داریاں تھیں اور شادی نہ ہو سکنے کا خوف۔۔۔ اب جو زمہ داریاں تھیں ' وہ عاصرہ کی تھیں۔۔۔ اس کے پاس پیسے تھے۔ اچھے ملبوسات تھے۔ وہ زیورات پہن کر گھنٹوں باتیں کرتی رہتی کافی کا مگ ہاتھ میں لے کر' اسے پروا تک نہ ہوتی کہ اس کے بچے سوۓ ہیں کہ نہیں ' انہوں نے کھانا کھایا ہے ٹھیک سے کہ نہیں۔ فرقان کے فون پر فون اتے۔
" کوئی رشتہ دیکھا۔۔۔ کوئی رشتہ آیا؟"
" دیکھا تھا۔۔۔ عافیہ کو پسند بھی کر گئے۔۔۔ لڑکا چرسی نکلا۔"
' لڑکے کی الیکٹرونکس کی دکان ہے۔۔۔ لڑکا شراب پیتا ہے۔۔۔ کردار بھی بہت خراب ہے۔"
" اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں اتنی جلدی۔۔۔ دیکھ تو رہی ہوں۔۔۔ ہزار لوگوں کو کہہ رکھا ہے اور کیا کروں۔"
سال بعد فرقان آیا۔۔۔ رشتے والی کو بلایا عافیہ نے اسی رشتے والی کو الگ سے بلایا۔ " کہنا لڑکی بی اے پاس ہے۔"
' لیکن لڑکی کا بھائی تو کہہ رہا ہے کہ یہ چھ ' سات پاس ہے۔"
" جو کہا ہے وہ کرو آپا! بس یہی کہہ کر رشتہ دیکھنا۔"
آپا بی اے پاس کا کہہ کر پڑھے لکھے خاندان کو لے آئی۔۔۔ لڑکی انہیں پسند آ گئی۔۔۔ بات پکی ہو گئی۔۔۔ بعد ازاں انہیں کہیں سے پتہ چلا کہ لڑکی پانچ پاس بھی نہیں۔۔۔ منگنی ٹوٹ گئی۔۔۔ جب منگنی ہوئی تو فرقان واپس چلا گیا کہ واپسی پر شادی ہو گی۔ وہ وہاں اچھے خاندان کو دینے کے لیے جہیز اکھٹا کرتا رہا۔ یہاں رشتے آتے رہے۔ بنتے گئے۔ ٹوٹتے گئے۔۔۔ کبھی لڑکا جواری نکل آتا ۔۔۔ کبھی شرابی' کوئی شادی شدہ ہوتا۔۔۔کسی کے چار' چھ بچے ہوتے۔
گاہے بگاہے۔۔۔ بھابی عافیہ نند عاصرہ کو پاس بٹھائے سچ گپ کرتی رہتی۔
" میرے بس میں ہوتا تو کبھی شادی نہ کرتی۔۔۔ ابھی بھی کہاں کر رہی تھی میری اماں نے زبردستی کر دی۔"
" کیوں بھابی؟"
" ذلالت ہے عاصی۔۔۔ نری ذلالت۔۔۔ بد دعا ہے عورت کو شادی۔۔۔ پنجرہ ہے جس میں دم گھُٹتا ہے' نہ عورت مرتی ہے ' نہ جیتی' لعنت کا طوق ہے یہ۔۔۔"
" ہاۓ بھابی! کیوں؟"
" جوتی کی نوک پر رکھتا ہے شوہر۔"
" فرقان بھائی جان تو بہت اچھے ہیں بھابی!"
" مجھ سے پوچھ' کتنے اچھے ہیں۔۔۔ گھونگھٹ اٹھاتے ہی تیرے بھائی نے میرے منہ پر تھوک دیا تھا۔ کہتا دوزخی' لعنتی' چڑیل۔۔۔ اور کیا بتاؤں کیا کیا نہیں کہا مجھے۔۔۔ ہزار بار دھتکارہ ہے مجھے۔ کہتا ہے میں ہوں ہی اسی لائق۔ میرا رنگ' میری شکل سب خدا نے ہی بنائی ہے نا عاصی۔۔۔ پر ان مردوں کو کون سمجھاۓ۔۔۔ انہیں تو حوریں چاہیں۔۔۔ اسی لیے تو ہر دوسری عورت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔۔۔مجھے تو تیرے لیے ڈر لگتا ہے عاصی! تیری تو آنکھ پر سورج گرہن بھی ہے۔ یہ اتنا بڑا سیاہ دھبہ ۔۔۔ تیرا شوہر نجانے کیسے تھوکے گا تجھ پر۔"