" ارے کیسی ٹینشن۔۔۔ اٹس اوکے دادی۔۔۔۔ یہ تو ہوتا ہے' فیل ہونا برا تو نہیں۔۔۔۔ کوشش نا کرنا اور ہمت ہار جانا برا ہوتا ہے۔ زوبیہ دوبارہ کوشش کر سکتی ہے' یہ کوئی نا ممکن بات نہیں۔" اس نے وہی آسان سا مشوره دیا مگر زوبیہ کو ماننا پڑا اس کے فیل ہونے پر۔۔۔۔ اگلے لمحے اس نے سوچا فیل ہونا برا نہیں تو۔۔۔۔ خود کیوں نہیں ہو جاتا؟ دیکھا اس کا مذاق اڑاتا انداز۔۔۔ سب سے جدا۔۔۔۔ بھئی ذہین جو ہوا۔
" درباره بھی کیا یقین کے پاس ہی ہو گی ۔ ویسے تمہیں کس جماعت کا وظیفہ ملا۔۔۔۔" اچانک یاد آنے پر اشتیاق سے پوچھا۔
" ایف ایس سی میں دادی جی۔۔۔۔" اس نے بے خیالی میں سادگی سے کہا انہوں نے نا سمجھ کر بھی سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا تو ۔۔۔ دونوں نانی نواسی کے دل بے ساختہ طور پر سکڑے۔۔۔ کاش کہ زوبیہ بھی!
" بات وہ نہیں۔۔۔۔ اب تو دوسری ہے بیٹا۔۔۔۔ اب یہ نہیں پڑھ سکتی۔" وہ مایوس سی بولیں تو خیام کو اچھنبا ہوا۔
" خیریت۔۔۔۔؟"
"وہی تو نہیں۔۔۔۔ بورڈ والوں نے کہہ دیا ' دماغ میں سوراخ ہے۔" وہ آنسو ضبط کرنے لگیں۔۔۔۔ تو خیام ہکا بکا رہ گیا۔
" یہ کس نے کہہ دیا آپ سے۔" اسے اماں بی کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔
" وہیں لکھا ہے تم دیکھنا۔۔۔۔ میں نے دانی سے پوچھا تو اس نے بتایا ہول کا مطلب دراصل سوراخ ہوتا ہے۔
میں سوچ سوچ کے پریشان ہوں خیام' میں بڑی محبت کرتی ہوں اس سے۔۔۔" وہ جذباتی ہو کر اسے دیکھنے لگیں اور وہ دماغ پہ زور ڈال کر جو ہنسنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اماں بی کا خیال کر کے بدقت ہنسی کے فوارے دبا پایا۔
" یا اللہ۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں پیاری دادو۔۔۔۔ کتنی بری بڑی فکریں پال رکھی ہیں آپ نے۔۔۔ ایسا یقینا رزلٹ پہ لکھا ہو گا اور اس کا ہرگز خدانخواستہ کوئی دماغ میں سوراخ والا مطلب نہیں۔۔۔۔ بلکہ اسے دوبارہ شروع سے پڑھنے کا کہا گیا ہے۔ آپ بھی ناں' کیا کیا اخذ کر لیا خود سے ہی۔۔۔۔" سنجیدگی سے کہہ کر وہ آخری بات پر ہنس پڑا اور اماں بی کے چہرے پر زندگی لوٹ آئی۔
" سچ کہہ رہے ہو؟" وہ عقیدت سے دہری ہو گئیں۔۔۔۔ اس لڑکی کی بات پر انہیں گوڈے گوڈے اعتبار تھا۔
" بالکل اب ٹینشن فری ہو جائیں اگلی بار زوبیہ ضرور پاس ہو کر دکھاۓ گی آپ عید کی تیاریاں کریں' دن ہی کتنے بچے ہیں۔"
" اس کی تو ایک ہی رٹ کہ آگے نہیں پڑھے گی۔۔۔ تم سمجھاؤ اسے 'خیام اپنی زندگی خراب کرے گی۔۔۔۔۔ تعلیم ادھوری چھوڑ دے گی تو کون کرے گا اس سے شادی۔۔۔ اس کی ماں بھی کہہ رہی تھی کہ آج کل تو اے- بی (بی-اے) والوں کی اہمیت نہیں کہاں میٹرک فیل۔"
" اماں بی۔۔۔" زوبیہ احتجاجا چلائی' میں اس شخص سے شادی کروں گی بھی نہیں جو میری تعلیم کو دیکھے گا۔" خیام نے دیکھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ پہلی بار وہ اس کے جذبات یک لخت سمجھ پایا تھا۔
" دادی جی۔۔۔۔ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں آپ' تعلیم ضروری ہے مگر کس نے کہا اسے بطور خامی لیا جاۓ رشتے جڑنے اور شادیوں کے فیصلےتو قسمت کی دین ہوتے ہیں۔۔۔۔ نا کہ اعلا تعلیم' خوبیوں کے ڈھیر اور اونچی اونچی کامبیوں کے۔۔۔۔ ہاں مجھے افسوس ہے کہ زوبیہ میٹرک کلئیر نہیں کر پا رہی مگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ کیوں غیر شادی شدہ ہوں جو بے تحاشا کامیابیوں کے زینے طے کر چکے ہیں۔۔۔ پھر تو ان کی شادی جلد ہی ہو جاتی چاہیے تھی۔۔۔۔ اور آپ ابھی سے اس نقطے پر سوچ ہی کیوں رہی ہیں؟"
وہ افسوس اور سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔ زوبیہ کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔۔ وہ حیران ہو رہی تھی۔۔۔۔ اتنا بھی برا نہیں ہے یہ۔۔۔!