" میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔"
" لیکن تم شک بھی کرتی ہو مجھ پر' مجھے جھوٹا فریبی کہتی ہو۔"
" میں کہتی بھی ہوں اور ثابت بھی کرتی ہوں کہ تم جھوٹے فریبی ہو۔ میرے پاس شک کرنے کی وجہ ہوتی ہے جبکہ تمہارے پاس نہیں ہوتی۔"
”وجہ۔۔۔۔۔ وجوہات ہیں اجالا! میکے کی تقریبات میں تم کیسے اپنے چھوٹے بڑے ہر سائز کے کزن کے ساتھ ہنسی مزاق کرتی ہو ۔ کیسے ان کی گردنیں دبوچتی ہو تمہارے ہی خاندان کے دور نزدیک کے لوگ تہمیں شک کی نظروں سے گھورتے ہیں' میں تو پھر تمہارا شوہرہوں۔ " تم بھی گھور لیا کرو۔ " روٹی بنا کر وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ ' کرلیا کرو سوال جواب۔"
" کرلیتا اگر وہ سب شکوک میری محبت سے قد میں بڑے ہوتے۔"
" تمہاری محبت کا قد بڑا نہیں ہے۔ میری اپنی ذات کا یقین تمہیں کوئی شک نہیں کرنے دیتا۔ تمہیں یقین ہے کہ تمہاری بیوی خواب میں بھی تمہیں قریب نہیں دے سکتی۔ میری ذات کو لے کر تمہاری ذات میں کوئی الجھاؤ نہیں کیونکہ میں نے الجھاؤ بننے ہی نہیں دیا۔ اس الجھاؤ کو اپنے اندر سے کاٹ کر ہمیشہ کے لیے پھینک دیا ہے۔"
" تو تمہارے خیال میں میرے اندر الجھاؤ' جو تمہیں الجھا دیتا ہے؟"
" کچھ تو ہے۔ " اس نے اسے کہا جیسے زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتی۔
" یعنی سب تمہاری ہی خوبی ہے اور میری محبت کا تو کمال ہی نہیں۔ اتنی محبت کرتا ہوں۔"
وہ ایسے سر ہلانے لگی ' جیسے وہ اس کی باتوں پرہلایا کرتی تھی تب سے جب وہ اسے یونیورسٹی میں کہا کرتا تھا کہ اسے اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ ہنسی روکے سرہلایا کرتی ۔ چہرے پر وہی تاثر ہوتا تھا جو ایک نادان کی بات سن کر کسی بزرگ کے چہرے پر آ جاتا ہے۔ شروع میں واصف کے لیے یہ صرف اس ایک ادا تھی ' پھر جیسے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ گیا۔ پہلے وہ اس سے لڑتا جھگڑتا تھا' اسے قائل کرتا تھا 'ناراض بھی ہوجاتا تھا ' پھر وہ اسے صرف دیکھ کر رہ جاتا۔
" نہ مانو ' تم کیا جانو میرے دل کاعالم ۔۔۔۔"
" بات یہی ہے کہ یہ دل تمہارا نہیں ہے۔"
" تو۔۔۔۔!"
" تو یہ کہ ہم اپنی چیزوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ۔" اجالا نے ایک انکھ دبا کر کہا۔
" دیکھا ۔۔۔۔ دیکھا۔۔۔۔! پھر وہی بات ! تہمیں مجھے چڑانے میں مزہ اتا ہے نا!" " " شاید! تمہیں چڑاتے ہوۓ میں اپنے شکوک کا اظہار کر جاتی ہوں۔ " اس نے مکمل سنجیدگی سے کہا
" کیسے شکوک؟ جبکہ میں نے تم سے کیا اپنا ہر وعدہ پورا کیا ہے۔ " واصف نے کھانا ختم کر کے اپنی اور اس کی پلیٹ اٹھائی اور انہیں دھونے لگا۔
" گھر کے کاموں میں تمہاری مدد کرتا ہوں ' آفس سے سیدھا گھر آتا ہوں۔ تمہارا اتنا خیال رکھتا ہوں تمہاری الٹی سیدھی باتوں کا جواب دیتا ہوں اور انہیں برداشت کرتا ہوں۔"
" لیکن ایک وعدہ رہتا ہے۔ ' کچن کی سلیب صاف کرتے اس کے ہاتھ رکنے لگے۔ صرف میرے ہی رہنے کا۔"
وہ دل کھول کرہنسا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
" تمہیں یقین کیوں نہیں آتا ."
" مجھے خود نہیں معلوم کہ مجھے یقین کیوں نہیں۔"