" میں فون کررہی تھی اور تمهارا فون آف تھا۔ کہاں تھے تم' کیوں کیا فون آف؟" اجالا نے بمشكل اس کے پانی پینے کا انتظار کیا تھا۔ واصف کی آنکھیں سکڑیں' جو اکثر ایسے وقت ہی سکڑ جایا کرتی تھیں۔
" بیٹری ختم ہوگئی تھی۔"
اجالے سامنے ٹیبل پر رکھے موبائل کو اس کے سامنے آن کیا۔ ”بیٹری تو ہے دو پوائنٹس ہیں ابھی۔"
" پتا نہیں! ایسے ہی رکھے رکھے بند ہوگیا۔ میں سمجھا بیٹری ختم ہوگئی۔"
" آں۔۔۔۔۔ نیا موبائل ہے اور رکھے رکھے بند ہو گیا؟"
" مجھے کیا معلوم کیسے ہوا؟" وہ چڑ گیا۔
" جب معلوم ہوجائے تو مجھے بتا دیتا۔ سالن بن چکا ہے۔ میں روٹی بنا کر کھانا لگا دوں گی۔"
" کیا مطلب۔۔۔ ؟ واصف نے بے چارگی سے اس کی طرف دیکھا۔ کھانا لگاؤ مجھے بھوک لگی ہے۔
" مجھے بھی بھوک لگی ہے۔ میں بھی تھک گئی ہوں کام سمیٹ کر۔ مجھے بھی آرام کرنا ہے۔ تم اتنی دیر سے آۓ ہو۔ تمہارا انتظار کرتے کرتے پریشان الگ ہوگئی تھی۔ اب تم سچ بتاؤ تو میں کھانا لگا دوں۔"
" یار کہا تو ہے آف ہو گیا تھا۔۔۔ تم میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتیں۔ ہر بار گھر آتے ہی سوال' سوال ' تکرار۔"
" ہر بار۔۔۔" وہ حیرت سے چیخی۔
" ہاں! ہربار تم اپنے سوال کرتی ہو' ایک بات کو اتنا کھینچتی ہو اور پھر میرا یقین بھی نہیں کرتیں۔ "
" تو مجھے یقین دلاؤنا۔ جو کچھ تم نے بتایا اس نہیں آیا یقین' جب آجائے گا تو کرلوں گی۔"
" کب آئے گا یقین۔۔۔۔؟"
" یقین ہمیشہ سچ پر آتا ہے۔ "
" تو میں ڈراما کر رہا ہوں؟ "
" معلوم نہیں' خود سے پوچھو اور مجھے بھی بتاؤ۔"
" کیا تم کبھی کسی بات کو بغیر بحث کیے جانے نہیں دے سکتیں' اسے ویسے ہی نہیں مان سکتیں' جیسے میں بتاتا ہوں۔"
" شاید کبھی ایسا کرلوں' لیکن آج نہیں۔ وہ اسی انداز سے بولی جس انداز سے وہ منواتی تھی' مانتی نہیں تھی۔
" مجھے نہیں یاد کے میرے موبائل کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کھانا دو مجھے ورنہ میں بھوکا سوجاؤں گا۔"
" ایک اور جھوٹ ۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ تمہیں سب یاد ہے۔"
" ہاں یاد ہے' سب یاد ہے۔ میں نے خود کیا تھا آف پھر۔۔۔۔۔؟"
" پھر۔۔۔؟" وہ اسے گھورنے لگی۔ " پھریہ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟"
" بس کر دیا 'میری مرضی' میرا دل کر رہا تھا۔"