محبت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ یہ مجھے اب معلوم ہوا' جب اس کے تیور بدلے۔ پہلے ارادے' پھر لہجہ' پھر لفظ اور پھر پورا کا پورا وہ بدل گیااور اب گھر کی ہر چیز اس کی طرح بدلی بدلی سی لگتی تھی۔جب سے وہ بدلا ' اس نئے گھر میں ایک لمحہ بھی سکون کا نہ ملا ۔ نہ ہی محبت کا احساس رہا۔ وہ جس کے لیے میں نے گھر چھوڑا۔ پھر گلی' محلہ' ماں' باپ' بہن' بھائی' سہیلیاں گویا سب کو چھوڑ دیا۔
سارے شوق ' کتابیں اور کہانیاں' کچھ بھی اہم نہ رہا' سواۓ اس کے۔ پہلے وہ باتیں بھولنے لگا ' اہم دن' پھر زمہ داریاں اور اب کسی دن لگتا ہے ' مجھے بھی کسی چیز کی طرح ایک کونے میں چھوڑ کر بھول جاۓ گا۔
بھولنے کی بیماری تو اس کی پرانی تھی ' اب مزید پکی ہو گئی ہے۔
اور میں' میری خواہشات اس کے وعدے سب ماضی کا قصہ ٹھہرے۔
جو میرے لیے کبھی راتوں کو سوتا نہ تھا۔ اسے اب نیند مجھ سے زیادہ پیاری ہے۔ وہ میرے سامنے رات ہونے سے پہلے ہی سو رہا ہوتا ہے۔
اور میں پوری پوری رات اس کی بے اعتنائی کا زخم چاٹتے جاگتی رہتی ہوں۔
جاگنا تو جیسے میرا مقدر بن چکا ہے اور سونا اس کا شوق' اولین شوق۔ وہ کیا تھا اور کیا بن گیا۔
( غصہ' افسوس اور بیزاری)
اسے مجھ سے کوئی ایک شکایت نہیں ہے۔ ایک ہو تو بتاؤں اور شاید دور بھی کر دوں مگر اس کی شکایتوں کی فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے دفتر کے کام بڑھ رہے ہیں' ویسے ویسے اس کی فرمائشیں اور ضرورتیں بھی۔ جو بعد میں شکایتوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
وہ اور اس کی شکایتیں۔
میں اور میری زمہ داریاں ' میری الجھنیں' میری پریشانیں' جن کا اسے کوئی احساس نہیں اور شاید نہ ہی کبھی ہو گا۔
اس لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اس سب کے بارے میں سوچنے کے علاوہ کچھ بھی نہ سوچوں اور چپ کر کے سو جاؤں' کیونکہ نیند بہت آ رہی ہے۔
صبح اٹھ کر دفتر بھی جانا ہے اور پھر گھر بھی لوٹنا ہے' پھر وہی۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔اور اس کی شکایتیں۔۔۔۔۔جو میرا نصیب۔۔۔۔ جو میرا مقدر۔
وہ بھی اور اس کے گلے شکوے بھی' جو کل پر اٹکتے ہیں۔