اب وہ اس ڈھیر کو جو مجموعہ درد تھا اس کے لیے' کو آگ لگا رہا تھا۔
ماچس گیلی تھی یا پھر ہاتھوں میں کپکپاہٹ آ گئی تھی۔ ہاتھ پھسل پھسل جا رہا تھا۔
یادیں جل رہی تھیں' خوش گوار لمحے آگ کی نظر ہو رہے تھے۔ وہ ہنس رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے منہ میں چلی گئی۔ معطر ظفر نے انکھوں کو چھلکنے سے روکا۔ وہ انسو اس آگ پر پانی کا نہیں تیل کا کام کرتے۔
میرے دل نے تمہاری یادوں کی۔۔۔۔
اک قبر بنا کر اس پہ چادر چڑھا ڈالی
کہ اب سال کے سال
مجھے اک کام کرنا ہے
تمہاری یادوں پر چڑھائی گئی" موسم کتنا پیارا ہے! وہ کیا کر رہا ہو گا؟"
ارم نے سوچ کو وسعت دی۔اتنی کہ وہ شعور میں اندھی ہو گئی۔ سوچتے ہوۓ کب نظر آتا ہے۔ ہاں تحت الشعور انکھوں کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔
اج کل اس کا دل بہت تنگ ہو گیا تھا۔ اس کی یاد کے سوا اس میں کوئی بات نہیں سماتی تھی۔
" بیٹا! تم یہاں لیٹی ہو۔ اندر چلو۔۔۔۔ بارش انے والی ہے۔ سارے کپڑے بھیگ جائیں گے۔"
نائلہ کی بات ختم ہوتے ہی بارش کی بوندیں اس کے چہرے پر گری تھیں ' وہ ہوش میں آ کر اٹھ کھڑی ہوتی' جبکہ وہ کہہ رہی تھیں۔
" آج جمعرات ہے نا' لو! اب یہ جھڑی سات دن تک جاری رہے گی۔"
گاؤں میں لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر جمعرات' جمعہ کو بارش آ جاۓ تو پھر سات دن تک جھڑی لگی رہتی ہیں۔
وہ خاموشی سے برآمدے میں جا بیٹھی اورنظریں اس سوکھے ہوۓ درخت پر جما دیں' جو بے نیازی سے کھڑا تھا اور بارش کی بوندیں نچھاور ہو ہو کر اس کے پاؤں چوم رہی تھیں۔
اگر ہوا کا جھونکا آتا تو وہ جڑ سے اکھڑ جاتا' لیکن بارش اسے مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ بارش جو باہر نہ برسے تو اندربرستی رہتی ہے۔
" معطر ظفر واپس آ گیا تھا۔" ہمیشہ کی طرح پورے دو سال بعد چار دن کے لیے۔
وہ بھی چیخا تھا' اس نے بھی مر جانا چاہا تھا۔
اس گھر کے چھوٹے سے گھر کے اک اک کونے میں اس کے ہاتھ کے بنے ہوۓ کارڈ آویزاں تھے۔ ان سب کو اکھیڑا تھا۔ تصویریں' بریسلٹ ' ربڑ بینڈ وہ ایک ایک چیز کو اکٹھا کر رہا تھا اور بڑبڑا رہا تھا۔
" وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ اس نے اپنی ماں سے کچھ نہیں کہا۔
اس نے بات مان لی ان کی۔ میں جو اس سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے میرے بارے میں سوچا تک نہیں۔"
اس چادر کو بدلنا ہے