چند باتوں کے بعد وہ چلی گئیں لیکن دماغ میں ایک خیال بھی ابھار گئیںاور سوچ کے پانی سےخیال راسخ ہو رہا تھا۔
" اندیشے بھی بند باندھے پانی کی طرح ہوتے ہیں ۔ زرا سی راہ دے دی جاے تو بہتے چلے جاتے ہیں 'اتنا کہ ڈبو دیتے ہیں۔"
اگلا دن روشن تھا اتنا روشن تھا کہ انکھوں میں کھٹکنے لگا تھا۔
سورج غضب کی آگ سمیٹ لایا تھا۔ یہ آگ ایک مرکز پر جمع ہو گئی تھی اور یہ مرکز نائلہ جاوید کا گھر تھا ۔ انہوں نے استخارہ کیا اور رشتے سے انکار کر دیا۔
" پہلے تو اپ کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ اپ کو معلوم بھی ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں ۔ پھر کیوں یہ ظلم کر رہی ہیں اپ؟"
معطر کی ماں چیخی۔ چنگھاڑی۔ گرجی بھی اور پھر برستے ہوۓ رخصت ہو گئی۔
نائلہ کا ایک ہی خواب تھا کہ۔۔۔۔
" ہم نے استخارہ کیا ہے۔ ضرور معطر نے وہاں شادی کر رکھی ہے۔"
ان کے جانے کے بعد نائلہ کی نظریں ارم علی پر پڑ گئی تھیں ۔ چہرے پر کسی نے اٹا پھینک دیا تھا۔ اندر شاید تیزاب کی سی جلن تھی۔
نائلہ بھاگ کر اس کے پاس گئیں اور اس بت بے جان میں جیسے جان پڑ گئی تھی۔
میں نے بہت کوشش کی ' لیکن
میں اسے نہیں بچا سکی
اک شام بہت چپکے سے
تمہاری محبوبہ مجھ میں دم توڑ گئی
فلک پر بادلوں نے قبضہ جما لیا تھا۔ آگ کا گولہ غصے سے سیاہ پڑ گیا تھا۔
آسمان پر چاروں طرف بادل چھاۓ ہوۓ تھے بالکل اس کے ذہن کی طرح' جس میں خیالات کا جم عفیر تھا اور اس کا دم گھٹ رہا تھا۔
انگن میں پڑی چارپائی پر وہ لیٹی ہوئی تھی۔ انگن میں کوئی درخت نہیں تھا۔ زمین میں کوئی مسئلہ تھا۔ زرا درخت بڑھتا اور پھر سوکھ جاتا۔
" کیا آسمان کا دم بھی گھٹتا ہو گا اتنے بادلوں سے۔۔۔؟"
عجیب سوچ تھی جو اس کے ذہن میں آئی تھی اور جو خالی جگہ تھی ' وہ بھی پر ہو گئی۔ پر خالی پن کچھ اور بڑھ گیا تھا۔
" یہ جو کتابیں ہوتی ہیں نا! یہ دوسروں کے دکھوں پر رونا اور اپنے دکھون پر ہنسنا سکھا دیتی ہیں۔"
یہ بات اس نے ایک کتاب پر تبصرہ کرتے کرتے کہی تھی۔ مگر اب اسے لگ رہا تھا دکھ جو اپنی ذات پر ہوتا ہے اگر وہ دکھ محبت کا ہو تو وہ آسمان سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ انسان کی پوری زندگی پر چھا جاتا ہے اور انسان کے اندر کو کسی آسیب زدہ مکان کی طرح کر دیتا ہے جو' کسی اور کو اپنے اندر برداشت نہیں کر سکتا۔ دکھ تو جیون ساتھی ہوتے ہیں۔ مرتے دم تک ساتھ نبھاتے ہیں۔ یہ دوست بہت باکمال ہوتے ہیں۔کاٹتے ہیں تو بھی اندر سے' مارتے ہیں تو بھی اندر سے۔۔۔۔