بات کرتے کرتے ان کی اواز بھرا گئی تھی۔ وہ انسو ضبط کرتیں کمرے سے نکل گئیں۔
" ایک دن یہ خود سمجھ جاۓ گی۔ اب تو یہ سمجھنا نہیں چاہ رہی۔ وقت سب سمجھا دے گا کہ ہمارا فیصلہ اس کے حق میں کتنا اچھا تھا۔" انہوں نے یہ سوچ کر دل کو بہلانا چاہا۔
وہ غلط سوش رہی تھیں ۔ ارم علی کی انکھوں میں دھند نہیں تھی جو غائب ہو جاتی ہے وہ گرد تھی جو بیٹھ جاتی ہے ۔ بار بار اٹھنے کے لیے۔
" یار! میں تو اس مصنف سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ کیسے اپنی ساری خوبیاں اور خامیاں بلکہ خامیاں ہی خامیاں لوگوں کے سامنے ڈھیر کر دی ہیں۔ کسی کسی کے دل جگرے کا کام ہے یہ۔۔۔۔"
وہ کتاب جس سے ارم پانچ دنوں سے چمٹی ہوئی تھی ۔آج ختم ہو گئی تھی۔ اب مہینہ بھر اس پر تبصرہ جاری رہنا تھا۔
" خیر' میں تو متاثر نہیں ہوئی۔ جن عیبوں پر پردہ اللہ ڈال دے ۔ انہیں بندہ افشا کیوں کرے۔ ویسے بھی انسان کو اپنی اچھائیاں ہی بیان کرنی چاہیے۔ برائیاں تو دوسرے خود سے گھڑ لیتے ہیں۔"
اس کی کزن سدرہ کو تو اس کی ہر بات سے اختلاف ہوتا تھا۔
" سدرہ کو کالے کوؤں میں سفید کوا بن کے نکو بننے کا شوق جو ہوا۔" ارم نے جل کر سوچا تھا۔
موبائل کی بجتی گھنٹی نے سوچ کو بریک لگائی۔
" کیا کر رہی ہو؟" معطر ظفر بات کا آغاز اس سوال سے ہی کرتا تھا۔ اپنی خیریت وہ پوچھنے سے پہلے ہی بتا دیتی تھی۔
" تمہیں پتا تو ہے۔" جواب بھی ہمیشہ والا تھا۔ مبہم۔۔۔۔ ارم نے مبہم جواب ہی دینے ہوتے تھے۔ زیادہ واضح چیزیں بھی تو چبھنے لگتی ہیں۔
" اور بھی کام ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔" جواب پرانا تھا' لیکن جواب کے بعد کی خاموشی نئی تھی۔
معطر خاموش ہوا تھا اور پھر خاموش ہی رہا۔ اتنا کہ ارم علی کے دل کو وسوسہ بخش گیا۔
" کیا ہوا؟" اندر جڑ پکڑتے اندیشے سے گھبرا کر وہ بولی تھی۔ بچپن کی منگیتر تھی وہ اس کی ۔ وہ بہت جلد اسے پہچان جانے والی۔
" کچھ نہیں ' پریشان ہوں بس۔۔۔۔"
وہ پریشان تھا اور اس سے زیادہ پریشانی والی بات ارم علی کے لیے کوئی نہیں تھی۔ معطر کو تو ہر بات ہلکا لینے کی عادت تھی۔
" میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ویسے ہی دل گھبرا رہا ہے اج کل۔ دل پر دباؤ سا محسوس ہو رہا ہے مجھے۔" اس سے پہلے کہ وہ منگیتر سے ڈاکٹر بنتی' وہ بولا تھا اور لہجہ ایسا تھا کہ وہ چونکی تھی۔
" پتا ہے کل رات کیا ہوا؟" یوں لگا جیسے کوئی میرا گلہ دبا رہا ہے اور جب میں جاگا تو میں نے ایک ساۓ کو خود سے دور ہٹتا محسوس کیا۔
" مجھے لگ رہا ہے تم کسی چیز کی ٹینشن لے رہے ہو' اتنی ٹینشن کہ تم اضطراری عارضہ کا شکار ہو رہے ہو۔" ارم علی کی اندر کی سائیکالوجسٹ پوری طرح بیدار ہو چکی تھی۔