" امی! اپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟ اپ خواب نہیں انکھیں نوچ رہی ہیں میری۔۔۔ کیوں مجھے اندھا کر رہی ہیں؟ آپ کیسے۔۔۔۔؟"
ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ انکھوں میں جمع ہوتے پانی نے اپنا راستہ بنا لیا۔ شفاف قطرے گر کر اپنی اہمیت کھونے لگے۔ انسوؤں کا اصل مقام انکھیں ہوتی ہیں جو انہیں سنبھالے رکھتی ہیں اور ایک دن اپنی بے قدری پر انہیں سزا کے طور پر باہر نکال دیتی ہیں اور زمین اپنے فراخ سینے میں ان قطروں کو جمع کر لیتی ہے۔
" ھم تمہارے ساتھ کچھ برا نہیں کر رہے' وہ واقعی ۔۔۔۔" انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے بات کاٹ کر گلو گیر لہجے میں کہا تھا۔
" آپ اپنے ہاتھوں سے میرا گلہ دبا رہی ہیں ۔ آپ کو پتا ہے مجھے سانس نہیں آ رہی یا پھر شاید آ رہی ہو' لیکن مجھے محسوس نہیں ہو رہی۔ مجھے اندر ہی اندر کوئی چیز کاٹ رہی ہے۔ بچھو کے کاٹے سا درد اٹھتا ہے۔ امی اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ مر جاۓ گا امی' وہ زندہ نہیں رہے گا امی۔"
وہ بیڈ پر بیٹھے روئی جا رہی تھی۔ یہ رونا عام رونا تو نہیں تھا۔ یہ آنسو تو وہ آنسو تھے جو کسی اپنے کی موت پر بہاۓ جاتے ہیں۔
" وہ مر جاۓ گا اونہہ۔۔۔۔ " انہوں نے نفرت سے اس کی بات دہرائی تھی۔
" یہ خوش فہمی بھی تمہاری جلد ختم ہو جاۓ گی۔ اس جیسے کمینے مار تو سکتے ہیں ' لیکن مرتے نہیں ' بہت ڈھیل دیتا ہے اللہ انہیں۔"
اب کی دفعہ وہ غصے سے بولی تھیں یا پھر انہون نے اپنی بے بسی کو غصے میں چھپانا چاہا تھا۔ لیکن یہ وہ بے بسی تھی جو چھپتی نہیں تھی۔ اک اک ادا سے مترشح تھی۔
ان کی بات سن کر وہ جو بے اواز رو رہی تھی۔ اونچی اواز میں رونے لگی۔ کچھ غم اگر شخصیت کو گہرائی بخشتے ہیں تو کچھ دکھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پرتیں اتار دیتے ہیں ۔
وہ سنجیدہ و تعلیم یافتہ لڑکی اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اگر بولنے کی طاقت ہوتی تو وہ انہیں بولنے سے منع کر دیتی۔ مگر اب جذبات نے زبان کے اگے جال بچھا دیا تھا اور زبان اس جال میں الجھ الجھ جاتی تھی۔
" امی! ہو سکتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو۔ وہ سب جھوٹ کہہ رہے ہوں۔"
" کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی مجھے۔ تین بار استخارہ کر چکی ہوں۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہیں؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ہمیں پہلے چل گیا۔"