" شمائلہ جواد" میں اپنے نام کے ساتھ تمہارا نام ایسے لکھتی ہوں جیسا کہ یہ میرا حق ہےاور یہ حق میرے سوا کسی کا نہیں۔ میرا یہ یقین بنا کہے' بنا پرکھے کامل ہے بالکل اسی طرح جیسے سورج نکلنے سے پہلے صبح کا ہونا یقینی ہوتا ہے ' بھلے سے دھوپ نہ نکلے' بارش برسے' دھند چھاۓ یا برف گرے' صبح ہو جاتی ہے۔
میری انکھیں گھور سیاہ ہیں اماؤس کی طرح' لمبے بال اور رنگ میدے جیسا۔ میں خوب صورت ہوں۔ اتنا جانتی ہوں اور میرا خوب صورت ہونا کافی ہےتم کو اپنا بنانے کے لیے۔ مزید سوچ بچار وہ کریں جن کے نہ بال اماؤس جیسے نہ رنگ میدے جیسا۔۔۔
بڑی نخوت سے سوچتی اور سر جھٹک' پیر پٹخ کر بنا کہے جتاتی ہوں یہاں وہاں۔۔۔۔ کیوں نہ کروں بھئی' ہر خوش قسمت لڑکی کی طرح میرا بھی ایک عدد خوب صورت منگیتر ہے۔ اس کے سوا میرا مدعا نہ کوئی ہے نہ ہی میرے پرورش کرنے والوں نے مجھے سمجھایا۔ میرا کمال دیکھیے! علاوہ خوب صورتی کے ۔۔۔۔ ایف اے پاس ہوں۔ سپلیاں کون سا چھپتی ہیں شکل پر۔۔۔۔ ابا کا سپر سٹور ہے اور بھائیوں کی موبائلوں کی دکان' اور بہن بھی میں تینوں کی اکلوتی۔۔۔۔
تو بھئی اترانا میری مجبوری ہے۔ بڑا سڑتی ہے میرے نصیب سے ' مرن جوگی امینہ۔ ڈر کے اہستہ نہیں بولتی۔ ڈرے میری جوتی۔ وہ تو اماں کہتی ہیں نہ بتایا کر سب کو نطر لگا دے گی نامراد۔ تو کروا لینی تھی نا بات پکی جواد سے۔۔۔۔ میرے منہ میں خاک۔۔۔۔ میرا مطلب جب بھا گیا میرا حسن مامی کو تو۔۔۔ میں تو بھولی بھالی معصوم۔ کوئی زیادتی تو نہیں کی نا بھئی۔ نہ اگے بڑھ بڑھ کے چاپلوسیاں کیں مامی کی اور مامی کہتی ہیں جواد تو کہتا ہے کہ بس گھور کالی انکھیں ہوں اور اماؤس جیسے بال ۔ اگے مامی بھی سمجھ دار اور شمائلہ بھی۔۔۔
" شمائلہ جواد" ہی سمجھیں اپ۔ ہم رہتے ہیں جعفری ہاؤس کے پہلے پورشن میں' درمیان والے ہیں تایا صدیق جعفری' تائی صدیقہ اور اکلوتی مرن جوگی امینہ جعفری اور اخری پورشن میں چچا سلیم جعفری' چچی عاصمہ' صوفیہ' تبسم اور ارسلان' ان کا نک چڑھا لم ڈھینگ' میرا کلاس فیلو تھا میٹرک تک ' وہ تو شکر سپلیوں کی مہربانیوں سے آگے نکل گیا مجھ سے ورنہ وہ فرسٹ آ کر سمجھتا تھا متاثر کر لے گا مجھے۔
خیر ہو ہی گیا نا میرا بھی ایف اے۔ اب اگر امینہ' صوفیہ' تبسم میری کزنیں جل مر جاتی ہیں تو جل مریں۔ امینہ اگر اپنی سانولی رنگت پر محنت کرے تھوڑی تو کچھ فائدہ بھی ہو۔