SIZE
1 / 6

وہ یہ نہیں کہتی تھی کہ میں تجھ سے محبت کرتی ہوں' وہ صرف اتنا کہتی۔

" مانک! اگر میرا بس چلے تو تمہاری ساری پریشانیاں اپنے سر لے لوں۔"

اور وہ اسے معصومیت سے اسے دیکھے جاتا' اس کی آنکھوں کے سارے عکس محبت کا منتر پڑھتے نظر آتے تھے۔ یہ عکس کس کے ہیں۔ مانک کو سروکار نہیں تھا اور جب وہ چلی جاتی تو آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوتا اسے اپنی انکھوں میں وہی رنگ دکھائی دیتا ' جو اس کی انکھوں کے ائینوں میں دکھتا تھا وہ ان کی انکھوں میں صرف اس کے خواب بطور امانت رکھتا آیا تھا ۔ خوابوں کو سنبھالنا آسان تو نہیں تھا مگر محبت بڑے بڑے مشکل کام بھی اسانی سے کروا لیتی ہے۔

کوئی ایسا ہی میگھ ملہار کے موسم کا سورج ہوتا جو کابھی چہرا دکھاتا کبھی چھپا لیتا بادلوں کے پردے میں ' وہ لسی اور ساگ بنا کر لے اتی اور گرم گرم مکئی توے پر بھونتا' اماں کے ملنے کے بہانے سے آئی ہوئی پر بھات کی سماعتیں اسی کی طرف ہوتیں۔ اماں کی ہر صحیح غلط بات پر وہ ہاں ہوں میں گردن ہلاتی اور اس کی نظریں اسے ڈھونڈتیں رہتیں۔ وہ عین سامنے چوکی پر جا بیٹھتا اور مکئی بھونتا۔ اسے مکئی پسند جو بہت تھی۔ آنکھیں سوال کرتیں اور دبی دبی مسکراہٹ میں کئی سوالوں کے جواب ملتے رہتے۔ مکئی کے دانوں کا مزا لیا جاتا چاول کی روٹی ساگ کے ساتھ کھائی جاتی پھر اماں اٹھ کر بستر بچھانے اندر چلی جاتی اور انہیں باتوں کا موقع مل جاتا۔ باتیں بڑی عام سی اور معصومانہ ہوتیں مگر ان میں چھپے سارے مفہوم لہجوں کے زریعے آشکار ہو جاتے سخت گرمی اور حبس کے موسم میں وہ اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی ٹھنڈائی لانا نہ بھولتی' اس کے ہاتھوں کی مہک محسوس کرتا اور اس کی ٹھنڈک اس کے دل تک اثر کرتی۔

سردیوں کی ٹھنڈی دوپہریں وہ اس کے لیے سوئیٹر بنتے گزار دیتی اور بہار کے موسم میں وہ اس کے لیے گجرے بھجواتا۔ وہ دونوں بچپن سے سارے موسموں کے ساتھی تھے اور بڑھتے وقت نے اس ساتھ کو محبت کا رنگ چڑھا دیا تھا۔

" تمہارے ہاتھ کتنے خوب صورت ہیں۔ مانک! اسی لیے تو حسن تخلیق کرتے ہیں۔ تمہارے بچوں کے ہاتھ کس پہ گئے ہیں۔ تم پر یا تمہاری بیوی پر اور کیا اس کے ہاتھ بھی ایسے ہی خوب صورت ہیں؟" وہ سوالوں پر سوال کرتی خاصی بے تکلفی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔

وہ پہلی ہی ملاقات میں کچھ کنفیوز سا ہو گیا۔" میری شادی نہیں ہوئی ابھی تک۔" وہ اپنا چتروں کا شیشہ گری کا کام اس کو دکھاتے ہوئے ہکلا سا گیا۔