اوڑھنی کے پلو میں رکھے درجن بھر انڈے اس کے قدموں میں ڈھیر ہو ۓ تھے۔ کچی زمین پر گرنے سے انڈے ٹوٹ گۓ ' لیکن میراں کے اندر بہت کچھ ٹوٹا ہوا جڑنے لگا تھا۔۔۔۔یہ جان کر کے اس کے اماں ' ابا بھی ابو بکر کو پسند کرتے ہیں پر کہتے کسی سے کچھ نہیں۔
" چاچا اتنی جلدی مت کرو ۔۔۔۔ کچھ پتا نہیں ان لوگوں کا کیسی طبعیت کے نہیں وہ۔" ابو بکر کی مدھم اواز میراں کے کانوں میں پڑی۔
وہ چولہے پر دودھ ابال رہی تھی۔ تارے آسمان پر جگمگا کراس اندھیر نگری کے اندھیروں میں روشنی بھرنے کی اپنی سی سعی کرتے تھے یا پھر دیسی گھی سے جلتے وہ چند دیے جو منڈیر پر جلتے تھے۔ وہ اپنی سوچوں میں غلطاں تھی جب اسے ابو بکر کی دھیمی اواز سنائی دی ۔ ابا اور وہ چھت پر تھےاور میراں کچے صحن میں دیوار سے لگی بیٹھی تھی۔
دودھ کب سے ابل کر اب کڑھ کڑھ کر بھی گلابی ہونے لگا تھا' لیکن وہ افق پر ماہتاب کی تلاش میں گردابوں میں گھری لگتی تھی۔ نجانے اس کے کان اتنے تیز کیوں ہو گۓ تھے جو ہر بات سن لیتے تھے' پہلے تو جب' اماں اسے بلاتیں تو ہوش سنبھالنے سے اب تک ان کا میراں سے یہی گلہ رہا تھا کہ وہ اتنا کم کیوں سنتی ہے۔
شاید وہ کچھ بہری تھی۔ لیکن اب تو اس کے وہ تمام خواب ' پلکوں پر سجتے جگنو' یک لخت ہی گھٹا ٹوپ اندھیاروں میں جا بسے تھے ' سو وہ ہوش میں ہی رہتی تھی۔
" پتر شک نہ کر۔۔۔۔ رب سوہنا کرم کرے گا۔"
" اگر تو کہتا ہے تو میں ویاں کے بعد ہٹی بنوا دوں گا اسے' پر کسی کو بتانا مت' ورنہ میراں کی ماں کو شکورہ پہلے ہی زیادہ پسند نہیں پھر تو وہ رولا ہی ڈال دے گی۔" ابا منت طلب لہجے میں بولے تھے۔
" پر چاچا! یہ بھی تو مناسب نہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا ' لیا خبر کل کو ہٹی بھی نہ سنبھال سکے' اپ کہیں اور دیکھ لیں۔" ابو بکر نے مناسب لفظوں میں چاچا کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
" جب اپنے سگے رشتے ہی اعتبار نہ دیں' تب غیر جیسا بھی سلوک کریں۔۔۔۔پر مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔" ابا کی لرزتی اواز اور ابو بکر کا شرمندگی سے سر جھکانا سب کو سمجھا گیا تھا۔
مطلب ابو بکر بے بس ہے۔۔۔ چاچا راضی بہ رضا تھا'ابو بکر ان کے دل کو لگتا تھا۔ ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرتا تھا' مہزب اتنا تھا کہ پنڈ کے باقی مردوں کی طرح ہر فقرے کے اول آخرمیں گالیاں نہیں نکالتا تھا۔
بہت ہی بیبہ بچہ تھا' شہر میں رہتا تھا' پر ہر مہینے کی پندرہ کو چاچا' ' چاچی سے ملنے پنڈ آتا اور اپنے اماں ' ابا کو بھی کبھی کبھار لے اتا سب کی عزت کرتا۔۔۔ لیکن ابو بکر نہ سہی کوئی ہور سہی ۔۔۔۔ ابا بہت قناعت پسند تھے۔
"اماں! وہ شکورا بہت ہی ویلا نکما ہے' ابا نے کیا جان کے اسے اپنی ہیروں جیسی دھی دی ہے اور تو اور ابا اسے اپنے پلے سے ہٹی بھی ڈلوا کر دے رہا ہے۔"
میران کے نکاح سے دو روز پہلے بھائیا صدمے سے چور اماں کو بتا رہا تھا اور اماں کے اندر جوار بھاٹے اٹھنے لگے۔