" ابو بکر نے کچھ نہیں کہا تیرے ابے سے؟"نیلماں نے کریدا۔
" اور تو جانتی ہے نیلماں۔۔۔۔" میراں دکھ سے بولی" شکورا کوئی کام دھندہ نہیں کرتا' بس ابے کی طرح پنج وخت مسیت میں حاضری پوری کرتا ہے' یا وہ ہٹی ہے جس پر اس کے سارے برادری والوں کا حصہ ہے۔ ابا نے اسے اپنی علیحدہ ہٹی بنانے کے پیسے دینے ہیں " ابو بکر سے یہی کہہ رہے تھے کہ وہ ہٹی ڈلوانے میں ان کی مدد کرے کیونکہ وہ یہ کام سب سے چھپ کر کرنا چاہتے ہیں' چونکہ انہیں وہ شکورا بہت پسند ایا ہے ' مسکین سا بندہ ہے ' لیکن کام دھندے کا کیا ہے' وہ میں اسے کروا دوں گا۔"
میراں نے کہانی من و عن نیلماں کے سامنے دہرا دی۔ میراں نے زکام زدہ سانس یوں اندر کھینچی گویا وہ اتنا رونا چاہتی ہوکہ اس کے انسوؤں سے کنویں بھر جائیں۔
بے اواز جھڑی لگ چکی تھی جو گھونگھٹ کی وجہ سے چھپ گئی تھی۔
گھونگھٹ نے بہت بار اس کا بھرم رکھا تھا' لیکن آج جب وہ کنواں بننے پر مصر تھی ' وہ اس کا بھرم قائم رکھنے میں بہت کوشش کرتا ' نرمی سے سارے آنسو اپنے اندر جزب کرتا جاتا تھا۔
" اچھا تو غم نہ کر ' یہی تیرے لیے بہتر ہو گا۔"
نیلماں نے اسے دلاسا دینے کی اپنی سی کوشش کی تھی پر ناکام رہی۔
نیلماں حسرت سے میراں کو تکتی تھی۔ گھونگھٹ کع پیچھے بھی وہ اپنے حسن کی چھب کو مکمل طور پر چھپانے سے قاصر رہتی تھی کہ وہ تصویر جمال دکھتی تھی۔ اس کا حسن ہیر کے حسن کو مات دیتا دکھائی دیتا تھا۔ وہ تارڑ کی " ماہلو" جو اپنے حسن میں بے مثال لگتی تھی اس کا عکس لگتی تھی۔
پر اس کی قسمت میں "ماہلو" جیسا دل آویز حسن تو تھا پر پر وہ امام بخش نہ تھا جو اسے ہر ہفتے سونے کا ایک تحفہ دیتا تھا۔
جو اس ماہلو کو قوس کی شکل بناتی پینگ پر ہلارے لیتا دیکھ کر وہیں پتھر ہو گیا تھا۔ شاید جوہری کوئی نہ تھا جو " میراں " جیسے ہیرے کی قدر جانتا۔
لیکن قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں' جن میں اپنی مرضی سے قطع و برید نہیں کی جاتی بلکہ سر جھکاۓ جاتے ہیں۔
" میراں کے ابا! وٹے سٹے والا معاملہ مجھے بالکل پسند نہیں ایا ۔ میں اپنے پتر کو کسی اور سے بیاہنا چاہتی ہوں ۔ اکو ایک ہی تو پتر ہے میرا۔" اماں کو اس فیصلے میں وٹے سٹے کا مسلہ ہی چبھ رہا تھا ' جس سے وہ بے آرامی محسوس کرتی تھیں۔
" بھلیے لوکےبہت دید والے لوگ ہیں' تو فکریں نہ پال۔۔۔ رب سوہنا کرم کرے گا۔" ابا نے بات ہی لپیٹ دی تھی جیسے بس اب اس موضوع پر کوئی اور بات نہیں ہو گی۔
" کیا تھا جو بھرجائی مان جاتی' میری میراں ان رڑھے میدانوں میں ۔۔۔۔" اماں نے ہوکا بھر کر کہا۔
" چپ کر جا میراں کی ماں ۔۔۔۔! کتنی بار سمجھایا ہے نا شکری نہ کیا کر ۔" ابا نے بات کاٹ کر اماں کو ڈپٹا تھا' لیکن اماں کا ہوکا اور ان کی آدھی بات مرغیوں کے ڈربے سے انڈے نکالتی میراں کی سماعت میں پوری کی پوری اتر چکی تھی اور وہ جی جان سے کانپ گئی۔