" اوہ۔۔۔! میں تو بھول ہی گئی تھی۔ آج ابو بکر نے شہر سے آنا ہے ۔" اماں نے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی ماتھے پر مارتے ہوۓ کہا۔
" میراں! تو جلدی سے ہانڈی چڑھا' میں تب تک خورشیدہ سے دیسی ککڑ لاتی ہوں ' دیری نہ کر ' چھیتی نال لہسن ' پیاز بنا کر آٹا گوندھ لے۔"
اماں تیزی سے چپل پیروں میں پھنساتی میراں کو ہدایت جاری کر کے خورشیدہ کے گھر کی طرف ہو لی۔
میراں نے تیزی سے سارے کام نپٹاۓ اور جب وہ تندور پر روٹیاں لگا رہی تھی ' تب اماں کا چہیتا بھتیجا شاہ گڑھ کی کچی پگڈنڈی پر چاچا امیر بخش کے تانگے پر بیٹھا ' چاچا امیر بخش سے سارے پنڈ والوں کا حال چال دریافت کر رہا تھا۔
چاچا امیر بخش کا مشکی گھوڑا ' دلکی چال چلتا شاہ گڑھ کی کچی پگڈنڈی پر سموں سے دھول اڑاتا محو سفر تھا۔
شاہ خاور ۔ کی روشنی پھیکی پڑنے لگی اور نیم ملجگا اندھیرا ہر سو پھیل گیا۔
" سلام چاچی جی! " ابو بکر کی اواز انگن میں کیا اتری برگد کے پتے ڈالیوں سے امڈ امڈ کر اس پر نثار ہونے لگے۔
ساتھ کھڑے ٹاہلی کے پیڑ نے جھوم کر ہواؤں کے دوش پر سلام کیا اور ساتھ ہی شہتوت کے پتوں سے تالیوں کی گونج اٹھی تھی۔۔۔۔ اور سارے ماحول میں سرائیت کرتی گئی ' پیڑوں کے اس شور اور شہتوت کے پتوں کی تالیوں کو میراں نے سر اٹھا کر دیکھا۔
آخری روٹی تندور سے نکال کر چنگیر میں نکالتے ہوۓ جب اس نے جھکے سر کو بلند کیا تو اس کے گلاب کے سے گلابی عارض ' خون چھلکاتے تھے۔ چہرے کے اطراف سے چپکی چند لٹیں پسینے سے تر بتر تھیں۔۔۔۔اس نے سیاہ ریشم کی سی شمک دار آنکھیں نووارد پر ٹکائیں۔
تب ہی چار آنکھوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا' جن میں سے دو آنکھیں بے تاثر تھیں۔
" سلام!" سیاہ پشم کی چمکدار آنکھوں پر پلکوں کی جھالریں گریں اور وہ دھیمے لہجے میں سلام کر کے اگے بڑھ گئی۔
اس رات جب ہر ماہ کی پندرہ تاریخ کو ابو بکر شاہ گڑھ آتا اور سب سے مل کر جاتا' وہ شب میراں کی شب ماہتاب ہوتی تھی ۔
سپنے گھڑنے میں اور پھر ماہتاب کو اپنے انگن میں اترتے دیکھنا اسے بہت دلچسپ لگا کرتا تھا۔
تائی حلیمہ ہمیشہ سے کہتی ائی تھیں۔ " میں اپنے ابو بکر کے لیے پڑھی ' لکھی لڑکی لاؤں گی ۔" لیکن میراں بے بس تھی کہ وہ انکھوں میں اترتے ان گنت ستاروں کو اپنی مانگ میں نہ بھرے۔ یہ اس کی سانسیں تھمنے پر ہی ممکن ہو سکتا تھاسانسیں چلنے پر نہیں۔۔۔۔
اسے خوب معلوم تھا کہ وہ نرم خو طبعیت والا شخص اس کے لیے۔۔۔۔ ست رنگ جزبوں سے مزین کوئی خواب نہیں سجاتا' لیکن میراں کو پروا نہ تھی۔
وہ ان راستوں پر گامزن تھی' جن کی منزل ہمیشہ سراب ہوتی تھی۔