شاہ گڑھ کو جاتی خم دار' مگر ویران پگڈنڈی پر سناٹے راج کرتے تھے۔
سر کے متوازی چمکتا سورج آگ کے گولے برساتا تھا۔ اس پر ہول سناٹے میں دم گھونٹتا حبس' جو انسان تو کیا حیوانوں کو بھی منہ کھول کر ہانپنے پر مجبور کرتا تھا۔
شاہ خاور ۔ اپنی تابناک شعاعوں سے ہر شے پر سنہری رنگ جماتا تھا۔ جو پارے کی طرح لشک لشک کر جاتی تھیں۔ گندم کی بالیوں کے سٹے اس سنہرے پن کو اپنے اندر سموۓ ساکت نظر آتے ہیں۔
ہواؤں نے " شاہ گڑھ " والوں سے بیر باندھ لیا تھا اور اب ان کی جانب آنے سے انکاری تھیں۔ اس سارے ساکن ماحول میں اگر کوئی شے حرکت میں تھی تو وہ " میراں" کا دستی پنکھا تھا جسے وہ مسلسل جھل رہی تھی۔
اس سلگتی جان لیوا گرمی میں اس کا دو آتشہ حسن گویا موم کی مانند بہنے پر آمادہ لگتا تھا۔ برگد کے چند چھدرے پتوں سے چھن کر آتی حرارت اس کے گلاب کے سے گلابی عارضوں کو دہکا کر سرک انار کی مانند سرخ بناتی تھی۔
مساموں سے پسینہ یوں پھوٹتا تھا گویا وہ نکڑ والے جوہڑ کے نیم گدلے پانی میں غوطہ لگا کر آئی ہو۔۔۔۔ اور نکڑ والا وہ جوہڑ جس کے کنارے دو پستہ قامت مگر چھدرے پتوں والے کیکر ایستادہ تھے' کسی طور بھی ' جوہڑ کے نیم گدلے پانی کو اپنے سایوں سے ٹھنڈک فراہم کرنے میں ناکام رہتے تھے تب اس دم گھونٹتے حبس میں مینڈکوں کی آنکھیں جوہڑ کی سطح پر تیرتی تھیں۔
سفید سفید سی بطخیں جو خورشیدہ کمہارن نے رکھی ہوئی تھیں ' شاہ گڑھ کے چپے چپے کو چھان کر اس میں رینگتے کیڑے مکوڑے تلاش کرتی تھیں ' اس سمے ان کی گول گول آنکھیں بھی ساکت نظر آتی تھیں اور وہ جوہڑ کے کنارے چپکی بیٹھی تھیں۔
" اماں ۔۔۔۔اٹھ اماں۔" میراں نے برابر والی چارپائی پر بے خبر سوئی اماں کو جھنجھوڑ ڈالا۔
" کیا ہے میراں؟کیا آفت آ گئی تجھ پر۔۔۔۔؟" اماں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔
" اماں ! آج پندرہ تاریخ ہے اور آج ابو بکر نے انا ہے بھول گئی ہو کیا؟" میراں نے چمکتی آنکھوں سے اماں کو یاد دلایا۔
اماں کی نیند سے بھری آنکھیں چوپٹ کھلے دروازے کی طرح پوری کی پوری وا ہو گئیں۔