چند منٹ ہی یکسوئی کے نصیب هوئے کے گیند تھک سے اسکے سر سے آٹکرای تھی. سر میں ایک دم سے شدید درد اٹھا تھا.
آنکھوں میں پانی اترنے لگا. اسنے گھبرا کر شمیم کے کمرے کی طرف دیکھا، بیل پھر بج رہی تھی، اندر سے اٹھتی طیش کی لہر
سے مغلوب ہوکر اسنے کتاب سائیڈ پر پٹخی اور تن فن کرتی گیٹ پر پہنچی . بغلی کھینچ کر کھولا. وہ ٹھٹھک کر روک گئی سامنے
ایک نوجوان کھڑا تھا. خوش شکل دراز قد اور سراسر اجنبی.
"محترمہ! ان بچوں کی گیند آپکے گھر آگئی ہے".
شائستہ انداز میں مطلع کیا گیا.
" جی ہاں، کوئی ایک بار نہیں ہزار بار آچکی ہے اور اور میں واپس کر چکی ہوں لکن اس بعد ہرگز نہیں کروں گی. غصّے سے
بولتے اس نے بچے کو گھورا.
"دیکھیں اس ٹائم واپس کر دیں نیکسٹ ٹائم مت کیجیے گا. اسنے نرمی سے سمجھیا تو سارے بچے اثبات میں سر ہلانے لگے.
"آپ ایسا کریں اس میں سے جو آپ کا بچہ ہے اسے لے جا کر شاپ سے کوئی درجن بھر گیندیں خرید دیں، ورنہ میں بتا رہی ہوں میں
گیند واپس کروں گی اور ساتھ میں زور دار پٹائی کر کے".
وہ سخت لہجے میں دھمکاتے هوئے بولی تو مقابل کے لبوں پہ بے باسختہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی.
صحن سے گیند اٹھا کر خاصے زوردار طریقے سے گلی میں پٹخ کر واپس کی دھاڑ سے دروازہ بند کردیا.
"ایں".........؟ اسنے بے حد حیرانی سے یک دم بند ہو جانے والی دروازے کو گھورا.
کافی مشکل سے مطلوبہ مقام تک پہنچ کر دیکھا تو گلی میں کھیلتے بچوں نے اسکو گھیر لیا.
" انکل اس گھر میں ہماری بال چلی گئی ہے، ینگ آنٹی بہت اچھی ہیں آرام سے واپس کر دیتی ہیں، اور جو اولڈ آنٹی ہیں وہ بہت
روڈ اور خوفناک طریقے سے بات کرتی ہیں ان سے بال واپس لے دیں پلیز."ملتجی معصومانہ انداز تھا وہ انکار نہ کر سکا.
"اوکے بیٹا! مانگ کر دیکھتے ہیں". فطری نرم خوئی سے مجبور ہوکر اس نے ناک کردی مگر سامنے کھڑی ہستی سے بات
چیت کے بعد اسکا دل چاہا کہ وہ بچوں کی اصلاح کردے کہ روڈ بڑی آنٹی نہیں بلکے چوٹی آنٹی ہوں گی، انہیں یقینا غلط فہمی
ہوئی ہوگی. وہ چونکہ ادھر ذاتی غرض سے نہیں آیا تھا، سو دوبارہ بیل بجانے میں ذرا بھر کا تامل نہ کیا.
دروازہ بے حد تپے هوئے انداز میں کھولا گیا مگر سامنے پھر اسی نوجوان کو دیکھ کر چہرے کے ہر نقش پہ حیرانی جم گئی.
" ابھی تو معامله نمٹایا ہے پھر دستک دینے کا مقصد"؟
"دیکھیں محترمہ ! میرا ان بچوں سے محض رہ گیر کی حد تک ہی تعلق ہے، میں کوئی بطور خاص انکے لئے دروازے تک نہیں آیا تھا".
وہ یقینا اسکی الجھن پا گیا تھا تبھی وضاحت دیتے هوئے بولا. "میں فاران بھائی کا کزن ہوں، مجھے انہوں نے آپکے گھر .بھیجا ہے"
"کون فاران بھائی؟" مشکوک انداز میں پوچھا گیا.
"می گاڈ! اتنی بے خبری". اسنے بے حد حیرانی سے سامنے کھڑی لڑکی کا جائزہ لیا جس کے دبلے پتلے سراپے پہ عام سا کاٹن کا
پھول دار سوٹ تھا. دوپٹہ سر سے آگے تک خوب اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا. سانولے ملیح چہرے پر سجی سیاہ آنکھوں میں صرف اس کے
لیے بے اعتباری ہی تھی.