کھینچ کر پھولوں کی کنج کے قریب بیٹھ گئی.
برآمدے میں پونچھا لگاتے ہوے مروہ کی نظر اوپر اٹھی تو وہ ٹھٹھک کر رہ گئی. ہاتھ فرش پر جمے کے جمے رہ گئے. عنابی لبوں،
گلابی رخساروں اور گہری براؤن آنکھوں کے ساتھ عارفہ پھولوں کے ساتھ بیٹھی ایک پھول ہی لگ رہی تھی. ایک خوشنما گل، جسے
قدرت نے نازکی و نکہت سے خوب نوازا تھا. لمبے گھنے سیاہ بالوں کے سروں سے پانی کی بوندیں ٹپک کر پشت کو بھگو رہی تھیں.
"میرے پاؤں کافی رف اور میلے میلے سے ہورہے ہیں"؟ عارفہ نے اپنے پیروں کا ناقدانہ جائزہ لیتے هوئے کہا.
"ہیں نہ مروہ!" ساتھ ہی اسنے تائید چاہی، وہ کب سے مروہ کا خود کو یوں یک ٹک دیکھنا محسوس کررہی تھی، ایسے میں
اس کے پیروں پہ اس کا راتے زنی نہ کرنا خوب کھلا تھا.
"میں تم سے کچھ پوچ رہی ہوں؟" ناراضی سے بولتے هوئے عنابی ہونٹ باہم سکڑ گئے تھے.
"جی باجی! میں بس آرہی ہوں، یہ کام ذرا نمٹا لوں". مروہ جلدی سے بولی، جھٹ پٹ پونچھے کا کام مکمل کیا. ٹب میں نیم گرم پانی
ڈال کر ذرا سا شیمپو اور لیموں کے چند قطرے ٹپکانے میں اسے چند منٹ ہی لگے تھے. سفید نفیس سی چپل سے پاؤں نکال کر
نزاکت سے ٹب میں رکھ دیے.
"عارفہ باجی کو خام خواہ وہم ہے ورنہ تو کسی کا چہرہ بھی اتنا بے داغ اور گورا نہیں ہوتا تھا جتنے انکے پاؤں ہیں". وہ نرمی سے
عارفہ کے گلابی و گداز پاؤں اپنے ہاتھوں سے مسلتے ہوے سوچنے لگی.
عارفہ نے ذرا سا نیم دراز ہوتے ہوے اپنے گورے پاؤں کو مروہ کہ سانولے ہاتھ میں دیکھا پھر بھرپور اطمینان سے فون پر
ربیعہ سے چیٹنگ کرنے لگی.
چھٹی والی دن بچوں کا واحد شوق کرکٹ کھلنا، گیند ہر دو منٹ بعد آہنی گیٹ سے آ ٹکراتی اور ساز و سامان سے بھرے گھر میں
آواز کونے کونے تک پہنچ جاتی. دوپہر کا کھانا کھا کر قیلولے کی تیاری پکڑتی شمیم تو اس شور سے سر سے پاؤں تک جھنجھلا جاتیں.
گیٹ کھول کا متعدد بار دھمکایا مگر ادھر چنداں فرق نہیں پڑا.. ہر پانچ منٹ بعد گیند گیٹ سے ٹکراتی اور دیوار کراس کر کے
صحن میں گرتی رہی. مسلسل بیل بجانے اور گیٹ دھڑ دھڑانے کے بعد کوئی نہ کوئی بچہ مسمسی سی شکل بنا کر عرض کرتا.
"آنٹی جی، ہماری بال آپکے گھر آئی ہے، لے لوں؟" مروہ نرمی سے جبکہ شمیم سنگین نتاتج کی دھمکیاں دے کر بال واپس کردیتیں.
"اب اگر دوبارہ گیند آئی یا بیل بجی ، کسی نے دروازہ پیٹا تو تمہاری خیر نہیں، سونے جا رہی ہوں میں، مجھے چپل گھسیٹنے کی
آواز بھی نہ آتے." وہ تحمکانہ انداز میں اسے تاکید کرتے هوئے اپنے کمرے میں سونے چل دیں.
عارفہ، ربیعہ کی ہاں گئی ہوئی تھی، وہ فراغت کو غنیمت جانتے هوئے کتاب اٹھا کر برآمدے کی سیڑھیوں پر آگئی.