اگلی صبح رضا ملائیشیا جا رہا تھا. پانچ بجے اسکی فلائٹ تھی. وہ تین بجے ہی بیدار ہوگیا تھا. حریم ابھی سو رہی تھی اس نے اسکو ڈسٹرب
کے بغیر وضو کیا. تہجد کی نماز پڑھی اور کمرے سے نکل گیا.
اپنی تیاری اس نے کل رات ہی مکمل کر لی تھی. والدین سے ملنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تھا. حریم جاگتے هوئے بھی سوتی بنی رہی. وہ
ڈریسنگ روم میں گھس گیا. وقت تیزی سے گزر رہا تھا. جلدی جلدی کرتے هوئے بھی تاخیر ہو رہی تھی. مکمل تیار ہوکر بیگ اٹھانے سے قبل
اس نے زبرداتی حریم کو جگا کر اپنے مقابل کیا. یوں ہی گلے سے لگاتے ہوے اسکے کان میں بولا.
"میں جا رہا ہوں اپنا خیال رکھنا واپسی پر ایک بہت بڑا سرپرائز دونگا."
"میں بھی".
مسکراتے هوئے حریم نے اسکو دیکھا تھا. وہ اسکی پیشانی چومتے هوئے کمرے سے نکل گیا. دو روز بعد اسکی واپسی ہوئی تھی. ایئر پورٹ پر
پھنچتے ہی اس نے حریم کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لئے کال کی تھی مگر اس نے کال پک نہیں کی اس نے بہت دفع ٹرائی کے بعد فون
جیب میں ڈالا اور اسکو سرپرائز دینے کے لئے ڈرائیور کو کال کرنے کے بجاتے ٹیکسی سے چلا گیا.
سنڈے کے وجہ سے ملازم چھٹی پر تھے. گھر کے اندر بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا. بڑی بی کے کمرے میں جھانکنے کے بعد اسکے قدم
حریم کے کمرے کی طرف بڑھے. ازحد سرشاری کے علم میں اس نے ناب گھما کر رکھا مگر......
سامنے موجود منظر نے اسے ساکت کر ڈالا.
سورج طلو ع ہونا بھول سکتا تھا، دریا الٹے بہ سکتے تھے. ہوائیں چلنا روک سکتی تھی مگر...
مگر اسکی حریم اس درجہ گر نہیں سکتی تھی. یہ وہ لڑکی تھی جسکو اس نے اپنی جان سے بھی عزیز رکھا تھا.
بہت اچانک اسکے دل پر دباؤ بڑھا تھا اور اگلے ہی لمحے ساری خواہشیں، سارے خواب مٹی ہوگئے. حریم پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس خوبصورت
توانا شخص کو دیکھ رہی تھی. جسے اسکی بیوفائی نے لمحوں میں چیت کر ڈالا تھا. کتنا پکا تھا وہ شخص اپنی عادتوں اور دعووں میں، طلاق
دینے اور لینے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی. اس سے پہلے ہی وہ زندگی کی بازی ہار گیا تھا.
..............................................................
مکمل سیاہ لباس میں افسردہ سی عمار کے قریب بیٹھی تھی اور عمار اسکو کہ رہا تھا.
"جو کچھ ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا. ٹھیک کہتے ہیں کہنے والی عورت کی ہوس اور لالچ کی کوئی حد نہیں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم واقع
اتنی سفاک ہو سکتی ہو. جاننا چاہو گی کہ میں نے تم سے راہ و رسم کیوں بڑھائے، خود کو تماری پسند کے سانچے میں ڈھال کر خود کو اس
شخص سے الگ کیا کیا".
وہ چیخ رہا تھا اور وہ بلکل ساکت بیٹھی خاموش نگاہوں سے اسکو دیکھ رہی تھی.
"منگیتر تھا وہ میری بہن کا، بچپن کا منگیتر اور میں اسکی بہن سے منسوب تھا.......اس بہن سے جو میرا پہلا خواب تھی، پہلی محبت پہلا
عشق، صرف تمہاری وجہ سے نہ میری بہن کی شادی ہو سکی اور نہ میں غیرت میں اپنی محبت کو پا سکا. سوچا تھا تمہاری جان رضا
سے چھڑا کر اپنی بد نصیب بہن کا گھر آباد کر دوں گا، مگر سارے پلان کا بیڑا غرق کر دیا تم نے. اب جو اور کسی ٹرین کے نیچے اپنا سر
دے دو".