میں نے بمشکل انکو ٹھنڈا کیا. ہم ہوٹل سے بھر آئے تھے کہ گاڑی میں بیٹھتے هوئے ایک گداگر بچے نے گاڑی کا شیشہ ناک کیا.
دو دن سے کچھ نہیں کھایا. الله کے نام پر کچھ دے دو صاحب.
ضمیر کے چہرے پر وہی ازلی غربت گومگو کی کیفیت میں پوری عاب اور تاب سے جگمگانے لگی تھی. مجھے اسکی شکل
دیکھ کر ہنسی آنے لگی.
"معاف کرو" حفیظ نے بچے کو کہا اور کاشف نے سگنل کی سرخ بتی کو ایک گالی نکالی.
"بہت بھوکا لگتا ہے بیچارہ". اس نے بے بسی سے کہا.
" ڈرامے ہوتے ہیں انکا یہ روز کا معمول ہے".
"الله کے نام پر کچھ خانے کو دے دو". گداگر بچے نے پھر اپنا سوال دوہرایا.
"یہ کھانا میں نے جمیلہ اور بچوں کے لیے پیک کروایا تھا."
وہ پتا نہیں باہر کھڑے بچے سے بولا تھا یا شاپر میں پڑے کھانے سے. میں اسکو غور سے دیکھ رہا تھا.
یک ڈیم اس نے شاپر بچے کی طرف بڑھا دیا.
"تم کھا لو! مجھے تم بہت بھوکے لگ رہے ہو". کاشف کی آنکھیں پھٹ گئیں. شدید بھوک میں اس نے ہاتھ روکا تھا کہ وہ یہ
لذت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محسوس کرے گا مگر اس نے یہاں بھی چھکا لگا دیا تھا.
"اسکی آنکھیں دیکھی ہیں؟ اسکی رگ رگ میں غربت بھری ہے، بندے کی آنکھ سیراب ہونی چاہیے". میرے اطراف لفظ گھومنے لگے تھے.
اور کبھی لنچ ٹائم پر سنایا ہوا ضمیر کا شعر مجھ میں ہلچل مچا رہا تھا.
"میری آنکھیں غریب ہیں ورنہ
مگر دنیا اتنی بھی کچھ امیر نہیں"
اور واقع آج وہ غریب دنیا سے امیر ہوگیا تھا.
آج تک ہم نے جو کھانا خیا تھا وہ ضائع کیا تھا لیکن آج کا رزق شاید ہمرے اعمال میں کسی نیکی کی وجہ بن جائے. کوئی پر اثر نیکی
جو سارے گناہوں کو ڈھانپ لے. میں نے اپنے جسم کو کانپتے دیکھا تھا اور ضمیر نے مجھے سمیٹ لیا.
"مجھے پتا ہے تم کتنے رقیق القلب ہو تم سے اسکی حالت نہیں دیکھی گئی نا مجھے پتا ہے".