"ابھی یہ تھوڑے سے پیسے ہیں تم ان سے کام چلاؤ. پھر میں سجاد کے ساتھ چکر لگاؤں گی تو ہم ابا کو ڈاکٹر کے پاس
لے جایئں گے.
"لیکن باجی"......مجھے اپنی مٹھی میں پیسے چبھنے لگے تھے یہ فرض تو بھیا کا تھا.
"اچھا بس کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے". باجی نے مجھے ٹوک دیا پھر تسلی دیتے هوئے مجھے دروازے تک چھوڑنے
آئیں تو پھر میں ان سے لپٹ گئی.
"باجی! ابا اچھے ہو جایئں گے ناں"؟
"انشا الله " ابھی تو انہیں تمہاری شادی کرنی ہے. مریم باجی نے پیار سے میری ٹھوڑی چھو کر مجھے بہلانے کی کوشش
کی تو وہ مسکرائی اور انکو خدا حافظ کہ کر تیزی سے چل پڑی.
اپنے گھر تک آتے هوئے میں خود بھوک سے نڈھال ہو چکی تھی، ابا کا جانے کیا حال ہوگا. مجھے اور کچھ سمجھ نہیں
آیا تو بیکری سے ڈبل روٹی، انڈے اور دودھ لے کر نکلی تو سامنے انکل حیدر نی پکار لیا.
حیدر انکل ہمارے محلے کے معتبر شخص تھے گارمنٹ فیکٹری تھی، شرافت اور صداقت میں پورا محلہ انکی گواہی دیتا تھا.
"کہاں سے آرہی ہو بیٹا". بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو. حیدر انکل نے پوچھا تو کہ اس وقت صرف ابا کا خیال تھا تو میری
زبان پر انکا نام آگیا.
"جی وہ ابا".......
"ہاں اب انکی طبیعت کسی ہے"؟
" جی بس"...... میری آنکھوں میں پھر پانی جمع ہونے لگا تو میں نے سر جھکا لیا.
"بیٹا کوئی پریشانی کی بات ہوا کرے تو بلاجھجھک کہ دیا کرو. تم میری اپنی بیٹی کی طرح ہو. میں شام کو آؤں گا تمہارے ابا