" مجھے پتا نہیں کیوں صبح سے ایسے لگ رہا تھا کہ تم آؤ گی، ابا کی طبیعت کیسی ہے؟ انہیں بھی ساتھ لے آتی،
بچوں کی وجہ سے فرصت نہیں ملتی ورنہ روز سوچتی ہوں تم سے اور ابا سے مل آؤں. مریم باجی میرا ہاتھ پکڑے ہوے
نظریں چرا کر بولتے هوئے مجھے اپنے کمرے میں بیٹھا کر جلدی سے پانی لے آئیں. تو میں نے جھپٹنے کے انداز میں
ان کے ساتھ سے گلاس لے کر ایک ہی سانس میں خالی کر دیا تو وہ پوچھنے لگیں.
"کھانا کھاؤ گی، لاؤں."
"نہیں باجی"! میں نے اپنے دہایاں دیتے پیٹ کی ایک نہیں سنی اور سہولت سے منع کر کے انکا ہاتھ پکڑ کر
اپنے ساتھ بیٹھا لیا.
" بس آپ کچھ دیر میرے پاس بٹھیں".
"کہاں سے آرہی ہو"؟ مریم باجی میری شکل دیکھ کر ٹھٹھکیں.
" بڑے بھیا کے ہاں گئی تھی". میں نے کوشش سے سرسری انداز اختیار کیا
تھا.
"خیریت"......... اور خیریت کہاں تھی ضبط جواب دے گیا. آنسو اس روانی سے چھلکے کہ مریم باجی سمیٹتے سمیٹتے
تھک گئیں.
"بس کرو صالھہ! مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے". مریم باجی خود روہانسی ہو گئیں تھیں، اور انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
لیکن اب کچھ چھپانا بھی ممکن نہیں تھا، میرے آنسو نے انکو سب کچھ سمجھا دیا تھا.
"ابا کی طبیعت خراب ہے، میں یہی بتانے بڑے بھیا کے پاس گئی تھی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی. باجی میں کیا
کروں مجھ سے ابا کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی. کاش میں انہیں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا سکتی". میں روتے ہوے بول
رہی تھی، مریم باجی ایک دم چپ ہوگئیں پھر اٹھ کر الماری میں جانے کیا تلاش کرنے لگیں تو میں اٹھ کھڑی ہوئی.
"میں چلتی ہوں باجی، ابا اکیلے ہیں".
"ہاں ایک منٹ". مریم باجی نے فورا الماری بند کی اور اپنی بند مٹھی میرے ہاتھ میں کھول کر میری مٹھی بند کردی.
"باجی".....