"ہاں! چکر لگاؤں گا". بھیا بری بیزاری سے کہ کر اٹھ گئے تو میں نے بری آس سے انہیں دیکھنے لگی. شاید مجھے اپنے
ساتھ چلنے کو کہیں گے چلو میں تمہیں گھر چھوڑتا ہوا چلا جاؤں گا مگر وہ تو بھابھی کو خدا حافظ کہ کر چلے گئے.
"بیٹھو صالہہ ! میں تمہارے لئے ناشتہ لاتی ہوں"
بھابھی نے نہ جانے کس دل سے کہا.
" نہیں بھابھی! میں ناشتہ کر کے آئی ہوں". میرے حلق سے بامشکل آواز نکلی تھی اور پھر میں رکی نہیں تیز تیز
قدموں سے باہر آگئی. میری آنکھیں دھندلا رہی تھیں اور مجھے کچھ پتا نہیں تھا کے میں کہاں جا رہی ہوں، بس چلتی
جا رہی تھی.
دن کے آغاز پر سورج کی کرنوں میں عجیب سی چبھن تھی، یوں لگ رہا تھا جسی بدن میں مسلسل سوئیاں چبحو رہا
ہو لیکن اس کے کہی زیادہ دکھن میرے اندر تھی. اتنی بڑی زمین اتنا بڑا آسمان اور میں تنہا........
میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے.
گھر جا کر ابّا کو کیا جواب دوں گی. وہ بیچارے کتنی آس سے مجھے دیکھیں گے اور پھر میرے پیچھے انکی نظریں
بھٹکیں گی شاید بھیا آئے ہیں.
" اور بھیا..... اف...... میرے ہونٹوں سے سسکی نکلی تھی.
بڑے بھیا پہلوٹھی کی اولاد ہونے کی وجہ سے اماں ابّا کی مشترکہ محبت کے حقدار تھے اور انکا پلہ اس لئے بھاری تھا کہ
انکے بعد دو بیٹیاں مریم اور میں تھی. یہ نہیں تھا کہ ہم دونوں نظر انداز کر دی گئیں تھیں یا ہماری کوئی اہمیت نہیں تھی
بس بات یہ تھی کہ اکلوتا چاند آسمان پر منفرد نظر آتا ہے، سو بڑے بھیا ایسے ہی تھے.
اسکول کالج میں تھرڈ ڈویژن لے کر آنے والے بڑے بھیا یونیورسٹی میں ایک حسینہ کے عشق میں گرفتار ہو گئے.
اور عمر قید کی سزا کے ساتھ انکے غلام بن گئے.
اماں کہ لئے یہ صدمہ گہرا اور تکلیف دینے والا تھا کیوں کہ انہوں نے بڑے بھیا کے لئے الگ خواب سجا رکھے تھے جو
یوں مٹی میں ملی کہ اماں بھی منوں مٹی تالی جا سوئیں.