میں صبح کو چاے پاپے کا ناشتہ کروا کر گھر سے نکل آئی. میری مٹھی میں چند سکے تھے جو میں
نے رات ہی گھر کے کونے کھدروں سے تلاش کے تھے اور جو بس بھیا کے گھر پوھنچنے تک ہی
کام آسکتے تھے. اس وقت تو یہ ہی غنیمت تھے واپسی کے لئے بھیا کچھ نہ کچھ دے ہی دیں گے.
میں اسی آس پر بھیا کے گھر پوھنچی تھی تو وہ آگے آفس جانے کہ لئے تیار ڈااننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ
کر رہے تھے.
میرے سلام کے جواب میں انہوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں اتنی صبح کیسے اورکیوں آئی ہوں.
بھیا...... وہ..... ابّا کی طبیعت بہت خراب ہے، رات بھر کھانستے رہے ہیں. میں نے تھوک نگلتے ہوے
بتایا تو بھیا سے پہلے بھابھی بول پڑیں.
ارے بڑھاپے میں تو ہر انسان کھانستا ہے، یاد نہیں تایا جی کیسے کھانسا کرتے تھے. ان کے لئے کتنی دوائیں کن، کوئی فائدہ ہوا.
میں نے بے بسی سے بھیا کو دیکھا تو بھابھی پھر شروع ہوگئیں.
مہنگائی دیکھ رہی ہو آسمان سے باتیں کر رہی ہے. کتنے اخراجات ہوتے ہیں. بچوں کی فیسیں، بلوں کی ادائیگیاں،
راشن پانی....... میرا میاں ایک کمانے والا ہے اوپر سے تم مہینے کے آخر میں تم پیسے مانگنے آگئی ہو. کہاں
سے دیں؟ ابھی عالیہ کی فیس بھی انہوں نے اپنے دوست سے پیسے ادھار لے کر دی تھی اور کچھ میرے پاس
جمع تھے وہ کام آے. مجھے بھابھی کی باتیں بری نہیں لگ رہیں تھیں دکھ تو بھیا کی خاموشی اور اطمینان کا تھا.
انکے چہرے پر مجھے ڈھونڈھنے سے بھی ہلکی سی ندامت نظر نہیں آرہی تھی تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور نہ چاہتے
ہوے بھی بھیا کو مخاطب کر گئی.
"بھیا آپ کتنے دنوں سے آے نہیں، ابا آپکو یاد کر رہے تھے آپکو"