حیا
نے گلدستہ اٹھایا اور دھرے سے پاس لا کر آنکھیں موندھے اسکو سونگھا. دلفریب تازگی بھری مہک اس میں اتر گئی.
پھول بلکل تازہ تھے جسی ابھی توڑے ہوں، جانے کون یہاں رکھ گیا.
اسنے بند لفافہ اٹھیا اور پلٹ کر دیکھا. اسکے پتے والی جگہ پر "حیا سلمان "لکھا ہوا تھا.
بھیجنے والی کا کوئی پتا نہیں لکھا تھا بس کوریور کی ٹکٹ لگی ہوئی تھی. اور ٹکٹ پر ایک روز قبل کی تاریخ
لکھی ہوئی تھی.
اسکو تو کبھی کسی نے یوں پھول نہیں بھیجے، یہ کیا معامله تھا.
الجھتے ہوے حیا نے لفافہ چاک کیا. اس این ایک موٹا کاغذ تھا. اسنے دو انگلیاں دال کر کاغذ باہر نکالا.
سفید کاغذ بلکل صاف تھا نہ کوئی لکیر نہ ڈیزائن.
بس اسکے وسط میں ٣ لفظ لکھے ہوے تھے.
"welcome to sabuna "
وہ سناتے میں رہ گئی.
یہ کیا مذک تھا؟ بھلا خط بھیجنے والی کو کیا معلوم کے میں سانجی جا رہی ہوں. خط پر تو ایک روز قبل کی تاریخ
لکھی ہوئی تھی. جب کے قبولیت کی میل تو ابھی پندرہ منٹ پہلے ملی. تو پھول بھیجنے والی کو ایک دن پہلے کیسے
پتا چل گئی. اگر زارا کو اسنے خود نہ بتایا ہوتا تو وہ یہی سمجھتی کے یہ اسکی حرکت ہے. یہ خط سبانجی یونیورسٹی
کی طرف سے بھی نہیں آسکتا تھا. کیوں کے اس پر لوکل کوریور کی موہر لگی ہوئی تھی. پھر کسنے بھیجا ہے یہ؟
وہ پانی کا گلاس وہی سلیب پر رکھ کر بکے اتھاہ کر سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں کھلی گئی.