SIZE
5 / 8

’’نوشی۔۔۔نوشی ۔۔۔! ‘‘ آوازیں گونجیں پر نوشی نہ آئی۔

’’نوشی۔۔۔!‘‘ ساس برآمدے سے نکل کر صحن میں آ کر چلانے لگی۔اوپر چڑھنے کو تھی کہ وہ جیسے ہڑ بڑاتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی۔

’’کب سے پانی بہہ رہا ہے ۔‘‘ آواز میں اتنا غم ایسا کرب تھا جیسے پانی نہیں کسی کا خون بہتا رہا ہو، اس بار تو سچ مچ۔

اب وہ نماز پڑھتی اور پانی کے لیے دعا کرتی ۔نئے ٹیوب ویل کے لیے منتیں مانگتی۔بوا اور ساس کو اس کی گود کی پڑی تھی اسے نل کی۔نل گود سے زیادہ پیارا ہو گیا۔آج کے زمانے کے انداز نرالے ہیں تو دکھ بھی نرالے ہی ہوں گے۔اور ان دکھوں کے علاج بھی نرالے ہی ہوں گے نا۔۔۔دربار میں پانی نام کا دیا جلا کر آتی۔۔۔

عورتیں کپڑے گہنے کی باتیں کرتیں‘ خواب دیکھتیں اور اسے پانی سے بھری بالٹی کا خیال للچائے رکھتا۔اس کے خواب میں ایک موٹا سا پائپ اور پانی کی تیز دھار ہوتی اور پودوں پر بوچھاڑ مار رہی ہوتی ۔اس کا جی چاہتا کہ پانی سے بھرا حوض ہو اور وہ اس میں ڈوب مرے۔

اس سے پیاری موت کیا ہو گی۔۔۔ وہ سمندرمیں ہو اوربڑی مچھلی اُسے کھا رہی ہو۔۔۔شڑپ شڑپ ۔۔۔چھل چھل پانی پانی۔۔۔

کئی دن گزرے پھرنوشی ۔۔۔نوشی ہوئی۔صحن میں کھڑی دونوں گلا پھاڑ رہی تھیں۔وہ چھجے پر آئی، نیچے جھانکا اور پھر نیچے آئی تو دنگ رہ گئی۔دونوں کی آنکھوں میں غصے کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔ددنوں کی پتلیاں حکمت کے سبھی غلیظ راز اگل دینے کو تھیں بس۔

’’تو اتنی اتنی دیر کیا کرتی ہے اوپر؟‘‘ انہوں نے پوچھ لیا۔اس نے جواب نہ دیا سبزی بنانے لگی‘ بوا نے اپنی بھاوج کو دیر تک تاڑ کر پھرکھنکھارا۔

’’وہ ساتھ والوں کا قمر چھت پہ ہی چڑھا رہتا ہے بھاوج ! اور چالیس کے پیٹے کا رنگین مزاج کنوارہ اسلم بھی اور وہ اُدھر کی چھت والا اور وہ ادھر تین گھر چھوڑ کر ۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔‘‘بوا اتنا کچھ جان بیٹھی تھیں۔۔۔بوا اتنا کچھ سمجھ گئی تھیں۔۔۔کہ ۔۔۔

’’دوپٹا نیچے ہی کیوں چھوڑ جاتی ہے؟‘‘ ساس نے سب سمجھ کر پوچھا

’’وہاں کہا ں لٹکاؤں؟‘‘ وہ پانی پانی ہو ہو گئی۔دونوں کی آنکھوں میں جو رنگ تھے وہ اُسے زنگ آلود کر رہے تھے۔شڑپ شڑپ اس پر تازیانے بر سا رہے تھے۔۔۔وہ جل تھل ہو گئی۔۔۔موئی۔۔۔اے عورت۔۔۔

’’سارے زمانے کی نظریں پڑتی ہیں۔‘‘ ساس کو اس کا جواب بہت برا لگا۔نند کی نظریں تاڑ گئی تھیں نا

میکے سے اس کا بھائی اور باپ آئے بہانے سے کہتے رہے کہ پائپ کے لیے کھدائی مل کر لیتے ہیں اور پھرموٹر لگا لیتے ہیں سہولت رہے گی۔سارے بیٹھے ہوں ہاں کرتے رہے۔ان کے جاتے ہی وہ فساد شروع ہوا کہ نوشی کا جی چاہا پانی کی ٹنکی میں منہ پر کپڑا باندھ کر کود جائے اور ڈوب مرئے اور انہیں اگلے دن پانی نصیب نہ ہو۔

لیکن وہ اپنا دم گھوٹ سکی نا ڈوب مری۔۔۔ہاں ان سب کو اگلے دن بھر بھر پانی دیا۔

ساتھ والوں نے موٹر لگوا لی تھی۔ان کی لڑکی جوہی سے نوشی کی علیک سلیک تھی۔

شام ہوئی تو پائپ لے کر آ گئی۔

’’بھابی ! بھر لو سب کچھ‘بھائی نے کہا ہے ‘ اتنا تیز پانی ہے کہ آدھے گھنٹے میں ہی سب بھر جائے گا کہا اور پائپ ٹنکی میں لگادیا اور ٹنکی فٹافٹ بھر گئی۔اندر باہر کے بھی سب فٹافٹ بھر گئے۔ٹھیک ہی کہا تھا بھائی نے۔

اس نے پائپ سے فرش دھو ڈالا۔فرش جگمگ کرنے لگا۔بنا برسات کے ابر برسا اور خوب برسا۔اس سے خوشی سنبھالی نہ گئی

جوہی سارا وقت بھائی بھائی کرتی رہی۔’’ بھائی نے کہا ایسے کر لیتے ہیں‘ ویسے کر لیتے ہیں۔‘‘

وہ خوشی سے کان لگا کر سنتی رہی۔آخر بھائی کی ہی مہربانی سے آج اس پر مہربانی ہوئی تھی۔بھائی بھائی کرتی جوہی چلی گئی۔بھائی بھائی کی سنتی نوشی لمبی تان کر سو گئی۔۔۔نل بہتا رہا۔۔۔ٹپ ٹپ ہوتی رہی۔۔۔

اب نوشی ‘ جوہی کی راہ تکا کرتی‘وہ آ جاتی تو اچھی طرح بات کرتی‘ نزدیک سے نزدیک ہوتی اس سے دوستی بڑھاتی اس دوران دونوں ہنستی رہتیں۔۔۔کبھی نوشی پانی کی بوچھاڑاس پر کر دیتی جوہی خوب ہنستی۔۔۔ہنسی کے دن آگئے تھے۔۔۔نظر نہ لگے۔۔۔

’’بھائی نے کہا کہ موٹر کا بل اگر ہم دونوں مل کر دے دیں۔‘‘ جوہی نے بھائی کا ہم خیال ہوتے ہوئے نوشی کو بھی اپنا ہم خیال کرنا چاہا۔بے چاری نیکی کا سوچے بیٹھی تھی۔

’’اے بچی سن۔‘‘ بوا کے کان بڑے تیز تھے دھاڑ کر بولی۔

یہ اپنا بھائی نامہ لے کر یہاں نہ آیا کر۔‘‘ بو ا نے انگلی کھڑی کر کے ایسے کہا جیسے اعلان جنگ کرتی ہو

اس کا منہ کھلا تو کھلا نوشی بوا کو دیکھتی رہ گئی