وہ ابھی گیا بھی نہ تھا کہ بات سب کے کانوں تک چلی گئی۔ساس نے ہاتھ نچا نچا کر اس سے پوچھا۔
’’جو اتنے گھنٹے موٹر چلے گی اس کا بل کون دے گا؟‘‘
’’یہ جو نل لگا ہے اس کا بل تو نہیں بھرنا پڑتا نا۔‘‘ بوا کی دلیل پر سب عش عش کرنے لگے۔۔۔واہ۔۔۔کمال ہو گیا۔
کرم بات جلد ی سمجھ گیا۔۔۔نوشی کی اماں کے دیے ہوئے پیسے کرم نے جیب میں ڈالے اور پرانی موٹر سائیکل بیچ کر نئی لے لی۔یوں موٹر آ گئی سڑک پر دوڑنے والی۔۔۔دو پہیوں کی۔۔۔پانی کی موٹر گئی بھاڑ میں۔۔۔
* * *
ایکد ن ایسا ہوا کہ گھر بھر میں پانی ختم ہوگیا۔۔۔اس دن دوپہر میں نل میں ایک قطرہ پانی نہ آیا تھا۔اس نے جورات کو روٹی کھائی تو نوالہ حلق کو جا کر لگا اور کھانستے کھانستے وہ ادھ موئی ہو گئی
لیکن ایک گھونٹ پانی نہ ملا گھر بھر میں۔وہ بھاگی ہمسایوں کے گھر اور جگ بھر پانی پی کر آئی اور پھر صحن میں بیٹھ کر رونے لگی۔سر پر ہاتھ رکھ لیا جیسے کسی کی جان گئی ہو۔جان ہی تو گئی تھی۔
’’وہ روئے جا رہی تھی‘‘
دیور کھانا کھا کر کب کے سونے جا چکے تھے سسر چھت پر ٹہل رہے تھے۔۔۔اور وہ روئے جا رہی تھی۔۔۔
’’ دنیا کہاں کی کہاں جا پہنچی۔۔۔جنگل سے منگل ہو گیا۔۔۔اندھیرے روشن ہوگئے۔۔۔چاند ستارے زمین ہو گئے اور اے آدم تو ایک پانی کے لیے آگ لگا رہا ہے۔۔۔اے عورت تو ابھی بھی رو رہی ہے۔۔۔ارے اے عورت توتو پانی کے لیے رو رہی ہے۔۔۔
تیرا نصیب بر ا نہیں ہے تیری فطرت بری ہے۔۔۔تو بزدل رو اور رو۔۔۔ٹپ ٹپ بہا دے خود کو۔۔۔تجھ میں ہے کیا کہ تجھے سینت سینت ذخیرہ کیا جائے۔۔۔تیری اوقات کیا ہے۔۔۔ہاں بس۔۔۔یہی رونا۔۔۔اورُ رو۔۔۔رو۔۔۔‘‘
بوا دوپٹا کھول کر خود پر پھیلا کرسونے کے چکر میں تھی۔۔۔وہ اُسے روتے دیکھ رہیں تھیں اور نہیں بھی۔جیسے نظروں کی ہونہہ میں کہہ رہیں ہوں۔۔۔نہیں جیسے بلندبانگ کہہ رہیں ہوں۔
کیوں رو رہی ہے،ایسا کیا ہو گیا تیرے ساتھ؟؟؟کیا عذاب نازل ہو گیا تجھ پر۔۔۔اکیلی ہے کیا جو بھگت رہی ہے۔۔۔
بول۔۔۔ہم نے اتنا عرصہ نہیں بھرا ‘ تو نے بھر لیا تو کیا نیا کیا؟ ہمارے وقت میں تو یہ نل بھی نہ تھا۔نجانے کہاں کہاں سے بھر کر لاتے تھے۔کن کن راستوں سے گزرتے تھے،کیسی کیسی نظروں سے پالا پڑا تھا۔
ہم نہیں ہوئے کیا پانی پانی۔۔۔کیا ہمارے لیے آگ نہیں بنا موا یہ پانی۔ہم نے کیا جنتوں میں زندگی گزاری ہے۔تو گھر بیٹھے بھر رہی ہے اور شکر نہیں؟ آج کے زمانے کی عورت بڑی ناشکری ہے اسی لیے لعنتی ہے۔۔۔لعنت ہے تجھ پر ناشکری عورت۔۔۔‘‘
’’ہماری تو عمریں گزر گئیں ہم تو نہ روئے ‘ نہ تھکے نہ واویلا کیا۔۔۔اور کرتے بھی کیوں۔‘‘ ساس بھی کچھ یہ کہنا چاہتی تھیں نا۔
کرم کمرے میں لیٹا سستا رہا تھا۔ٹی وی کی آوازگھر بھر میں گونج رہی تھی ۔ایک دیور کی آواز بھی گونجی
’’ اوے کرم۔۔۔یار آواز تو کم کرنیند نہیں آرہی۔‘‘
آواز کم ہو گئی۔۔۔وہ بیٹھی روتی رہی۔۔۔
’’نوشی۔۔۔!نوشی۔۔۔!‘‘ برآمدے کے تخت اور چارپائی سے دو آوازیں آگے پیچھے آ رہی تھیں۔رات وہ روتے روتے سو گئی تو آنکھ ہی نہ کھلی
’’پانی آ گیا بھر لے۔‘‘
وہ ڈھیٹ بنی لیٹی رہی ‘بوا اٹھی کہ ساس بالٹی کو دیکھا کہ بھر تو نہیں گئی اور پھر اس کے سر پر آ کر کھڑی ہو گئی۔
’’نوشی اُٹھ۔۔۔پانی آگیا۔۔۔‘‘
و ہ نہ اُٹھی کیوں اُٹھے
’’اٹھتی کیوں نہیں؟‘‘ کرم غنودگی میں ہی دھاڑا،نیند سے اُٹھ کر آیا تھا نا۔رات بھر اُس کے رونے سے سو نہ سکا تھا نا۔
وہ چیخ کر اٹھی‘ دو بالٹیاں بھر کر غسل خانے میں گھس گئیخوب جی بھر کر نہائی۔
بوا اور ساس ہل ہل گئیں۔
’’اتنا پانی! ٹنکی تو بھر لیتی پہلے۔‘‘
جب تک وہ باہر نکلی ۔دونوں نے ہی باری باری اٹھ کر بالٹی انڈیلی ۔پانی چلا گیا۔نہ ٹنکی بھری گئی نہ ہی کوئی اور بڑا برتن۔سب بنا نہائے ہی چلے گئے۔دوپہر کے بعد کہیں پانی آیا۔اس وقت وہ دونوں اسے اتنی بار اتنا سنا چکی تھیں کہ وہ باؤلی ہو گئی۔
’’کیا ضرورت تھی اتنا غصہ کرنے کی؟‘‘ وہ واقع باولی ہو ئی خود کو کوسنے لگی۔ پانی آیا تو سارا غصہ بھلا گئی لیکن بوا بھولنے کی نہیں تھی یہ سب۔غسل خانہ نیچے تھا اور لیٹرین اوپرچھت پر۔جو جاتا پانی ساتھ لے جاتا۔پانی بھرتے بھرتے اس کی کمر ٹوٹنے کے قریب تھی۔وہ لیٹرین چلی گئی۔
’’یہ اتنی اتنی دیر اوپر کیا کرتی ہے؟‘‘ بوا کوئی دس بار سر اوپر کی طرف کر کے کہہ چکی تھی۔
’’بالٹی بھر گئی ہے نوشی !آ جاآتے ہی وہ سب نہائیں گے۔‘‘