ٹنکی بھری ہی ہوتی اور کون بھرتا۔۔۔نوشی۔۔۔اللہ ہی جانتا ہے کہ شادی سے پہلے اسے کون بھرتا تھا‘لیکن اب تو چوبیس سوگھنٹے وہ اسی کے پاس ٹکی رہتی۔۔۔اسی کی دیکھ ریکھ کرتی۔۔۔اسی کے چاو چونچلے کرتی پھرتی۔ساس اعلان کرتی۔
’’نوشی نل ٹپک رہا ہے ٹنکی بھر لو۔‘‘
نل کے نیچے بڑی بالٹی دھری رہتی‘ اور یہ بالٹی وہاں ایسے ہی دھری ہوتی جیسے آسمان سر پر دھراہے ۔جس رفتار سے پانی آتا تھا‘
بالٹی کو بھرنے میں بہت وقت لگ جاتا پر ساس اعلان کیے ہی جاتی۔۔۔کیے ہی جاتی کہ اگر ایک قطرہ بھی گر گیا تو غضب ہو جائے گا
،دنیا اس قطرے میں بہہ جائے گی۔۔۔ڈوب جائے گی۔۔۔طوفان نوح آجائے گا ۔۔۔گناہِ عظیم ہو جائے گا وہ سب دوزح میں دھکیل دیئے جائیں گے۔۔۔انھیں کافر مان لیا جائے گا۔۔۔جہنم کے دروغہ ان کے پیچھے لپک لپک آئیں گے۔
’’آگ تھا یہ پانی ‘‘
اونچے نیچے نیلے ڈھبوں کا علاقہ تھا‘ زمانوں کے پانی کے پائپ دبے تھے
۔چند ایک گھروں کے بہت پرانے ہو گئے تھے پائپ۔کئی تو درمیان میں ہی ٹوٹ کر زیر زمین رستے تھے۔پائپ رہ گئے بہت نیچے اور گھر ٹیلوں پر اونچائی میں ہو گئے۔اب بہت ہی پریشر سے پانی آتا تب ہی نل تک آتا
‘قریب قریب کے گھروں کا بھی یہی حال تھا۔ہزاروں روپے لگاؤ
۔۔کھدائی کرواؤ۔۔۔پائپ کی نئی فٹنگ کرواؤ موٹر لگاؤ اور پانی کھینچ لو۔۔۔لیکن یہ ہزاروں جو کہ لاکھوں لگتے تھے کوئی پانی پر لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔چھی پانی پر ایسی پیسوں کی تباہی کیوں۔۔۔؟
ساس کے زمانے کا ایک بڑا حمام چار چھوٹی بڑی ٹنکیاں صحن اور برآمدے میں ،اتنے ہی کچن میں چھوٹے بڑے ڈرم۔۔۔اورکچھ چھت پر۔۔۔کچھ غسل خانے میں۔۔۔بہت کچھ تھا چھوٹا بڑا بھرنے کے لیے۔۔۔
ساس کا تو جی چاہتا کہ پانی ذرا رفتار پکڑے تو صندوق ‘ الماریاں بھی پانی سے بھر دیں۔اور تو اور منہ تک سب کو پانی سے بھر کر منہ بند کروا کر دنوں بیٹھائیں رکھیں کہ منہ نہ کھولنا کہ پانی گیا کہ گیا۔۔۔دم گھٹ جائے پانی نہ جائے۔۔۔
کوئی ہے جو ایسی وفاداریاں بنھائے پانی سے۔۔۔
زیادہ پریشر سے پانی منہ اندھیرے آتا‘
جب لوگ تہجد کے وقت اٹھنے کی تیاری کر رہے ہوتے۔اس وقت بقول بوا کے ٹنکی آدھ گھنٹے میں،حمام بیس منٹ میں اور باقی چھوٹے بڑے برتن سب چٹکی بجاتے میں بھر جائے۔اگر کوئی سوتا نہ رہے اور وقت پر اٹھ جائے ۔وقت پر کون اٹھے ۔۔۔؟؟
سسر یا دیور؟؟وہ سارا دن کے تھکے ہوئے باہر کے ہزار کام کرتے‘گھر کے کام بھی کریں گے تو عورتیں کیا مجرا کریں گی؟‘‘
نوشی نے سنا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے سسر یہ کام کرتے تھے۔شادی کے بعد چند مہینے سسر اٹھتے رہے پھر تنگ آ گئے بولے۔
’’ میں اس مشقت سے تنگ آ چکا ہوں۔‘‘
نوشی کو ان پر ترس آیا‘ کرم کو کہا وہ اٹھا کرے۔الٹا اس نے پیاری بھری آواز میں کہا۔
’’تم کیوں نہیں اٹھ جاتی۔‘‘
سسر بیمار ہو گئے پانی کے لیے ہاہا کار مچی ،نوشی بہت پچھتائی۔
’’اگلے دن وہ اٹھی بالٹی بھربھر ٹنکیوں میں انڈیلی‘ پھرحمام بھرا۔سب بھر گیا تو باورچی میں رکھے ڈرموں کی باری آئی،ان بھریوں اور باریوں کے دوران وہ اونگھ اونگھ جاتی رہی