SIZE
1 / 8

’’قطرہ قطرہ نل ٹپک رہا ہے‘‘

وہ سجدہ کر رہی ہے اور سجد ے میں ٹپ ٹپ ہو رہی ہے۔۔۔اب بالٹی بھری کہ تب ۔۔۔اب پانی بالٹی میں ناک تک آیا کہ آیا۔۔۔

’’وہ قیام کر رہی ہے‘‘

اب پانی بہے گا۔۔۔

وہ رکوع میں ہے۔۔۔پھر سجدہ۔۔۔

بوا کی آواز آئی کہ آئی۔۔۔یا ساس کی۔۔۔

’’نوشی ۔۔۔نوشی۔۔۔پانی بہے جارہا ہے۔۔۔نوشی کہاں ہے تو۔۔۔غضب خدا کا ایک تو پانی آتا نہیں اُوپر سے یہ ناشکری ۔۔۔

او نوشی۔۔۔پانی۔۔۔‘‘

سارے سجدوں۔۔۔قیام۔۔۔رکوع۔۔۔آیات میں۔۔۔او نوشی ۔۔۔اے نوشی۔۔۔ٹپ ٹپ۔۔۔ ارے وہ بہا۔۔۔

سلام پھیرتے ہی دعا مانگے بغیر وہ بالٹی کے پاس آئی جو آدھی بھی نہ ہوئی تھی کو اُٹھا کر ڈرم میں اُلٹا جو نل کے پاس ہی رکھا تھا

۔بوا کے کان بالٹی کے پانی کے بہنے کے انتظار میں ہی لگے تھے کہ پانی باہر نکلے اور وہ اپنی آواز سے ہجوم اکٹھا کر ے

۔۔۔اس پانی پر ہنگامہ کرنے کو وہ سب تیار رہتے تھے ویسے اس پانی پر بہت ہنگامے ہو چکے تھے جی ابھی بھی نہ بھر ا تھا۔

واپس جا کر اس نے دعا مانگی‘ دعا کا بھی وہی حساب کتاب رہا جو نماز کا رہا تھا۔۔۔ٹپ ٹپ۔۔۔بالٹی۔۔۔اے لو وہ بہا۔۔۔اُس کے کان اس کے دشمن تھے

یا کان کے مالک کے اند ر کہیں اُس کا چھپا ہوا ضمیر جو اُسے کہتا۔۔۔

ہر عبادت سے بڑھ کر ہے یہ پانی۔اس دنیا کا نہیں صرف اس گھر کا پانی۔۔۔پانی بھر لے اور کن چکروں میں پڑی ہے تو، خدا کی پڑی ہے تجھے۔۔۔اچھا پر کیوں۔۔۔۔۔۔ٹپ ٹپ۔۔۔ارے وہ بہا۔۔۔

وہ اکلوتی بھابی سب کی‘

بڑے بھائی کے بعد چار بہنیں تھیں جنہیں بیاہ کر ہی بھائی کو فارغ کیا گیا۔بھائی پینتیس سے کئی اوپر کے ہو چکے تھے اور نوشی بیس سے ذرا نیچے کی۔۔۔اور بس آگئی دلہن بن کر اس اونچ نیچ میں۔

پہلا کام جو بھابی کو شادی کے اگلے دن ہی کرنا پڑا،وہ غسل خانے میں رکھی بالٹی کو باہر رکھی ٹنکی سے بھرنے کا تھا‘ کرم نے کہا۔

’’سب ہی اپنے اپنے نہانے کے لیے خود ہی بالٹی بھرتے ہیں ۔میرے لیے تم بھر دو۔‘‘

اس نے صحن میں ایک طرف رکھی ٹنکی سے پانی نکال نکال کر بالٹی بھر دی۔یہ تو پہلا دن تھا ذرا ہلکا رہا۔

کھیر پکانے سے پہلے پہلے وہ کئی سو بار بالٹی کو بھر چکی تھی۔نندیں سب جا چکی تھیں

۔ساس برآمدے کے تخت پر بیٹھی ہمہ وقت نل کے پانی کے آنے اور جانے کا اعلان کرتی رہتی۔

ایک بوڑھی بوا بھی تھی جو ساس کے قریب ہی بیٹھی رہتی۔دونوں کو پانی سے پیار تھا یا پانی کے نام پر اٹھایا کوئی حلف پورا کرنے کو تھیں یہ نسلی کہانی نوشی کی نسل ابھی سمجھ نہیں پا رہی تھی

۔تواس اتنے سے وقت میں اتنا ضرور ہوا کہ دلہن کو آتے ہی ایک بات اچھی طرح سے معلوم ہو گئی کہ اس گھر میں پانی بہت قیمتی ہے ۔ سب دل و جان سے اس پانی کی قدر کرتے ہیں۔ دونوں دیور گھر آتے ہی پہلے پانی کا پوچھتے،ڈرم ٹنکی کا ڈ ھکن اُٹھا اُٹھا دیکھتے۔

’’ٹنکی بھری ہے؟‘‘