SIZE
2 / 6

ببلو کی محبت میں سال بھر سے وہ یہ سب برداشت کیے جا رہی تھی. اسے ببلو کی ماں زبیدہ پر بہت غصّہ آتا تھا. جب وہ خود ببلو کو

چھوڑ جاتی تھی تو لینے بھی تو آسکتی تھی. نجانے کیوں ہر دفع وہ مرید کو ہی بھیج دیتی تھی. ماہ بانو پر اکیلی ہوتی اور وہ وقت بےوقت

آجاتا. شکیل، بانو شوہر مستری تھا. وہ صبح کام لیے نکلتا تو شام کو ہی لوٹتا تھا جب کہ مرید کی اپنی پرچوں کی دکان تھی. وہ جب بھی

چاہتا دکان شٹر گرا کر گلیوں میں مٹر گشت کرتا.

ماہ بانو بے اولاد تھی اور ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم تھی. اس نے ڈاکٹروں سے مایوس ہوکر حکیموں

اور دائیوں سے بھی علاج کروایا لیکن سب بے سود رہا اسکی بانجھ گود ہری نہ ہو سکی. پھر وہ مایوس اور نا مراد ہوکر بیٹھ رہی. شادی کو

چھ سال ہونے کو آئے تھے جب ممتا کے درد سے بوجھل بانو کو ببلو مل گیا. ببلو زبیدہ کی ساتویں اولاد تھا. اس سے پہلے زبیدہ کے تین لڑکے

اور تین لڑکیاں تھیں. ببلو کو سمبھالنے کا وقت زبیدہ کے پاس نہیں تھا. سال بھر کا ببلو ریں ریں کرتا پوری گلی میں مارا مارا پھرتا تھا.

ایک روز ماہ بانو کا دروازہ کھلا پاکر وہ گھر کے اندر چلا آیا، بانو، جو چکی پر بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی اسکو دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھی.

اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسکی تمنا چپکے سے تتلی بن کر اسکی ہتھیلی پر آبیٹھی ہو. وہ جلدی سے اٹھی. ہاتھ دھوے اور جاکر ببلو کو گود

میں اٹھا کر چومنے لگی. نرم دلیہ پکا کر اسکے خالی پیٹ کو بھرا پھر سوتے هوئے ببلو کو پیار کر کے زبیدہ کو مطلع کرنے اسکے گھر چلی گئی.

زبیدہ بے پرواہ عورت تھی. اسے علم تک نہ تھا کہ اتنی دیر سے ببلو، ماہ بانو کے ساتھ ہے. بس پھر کیا تھا. ماہ بانو کو

سال بھر کا بچہ اسکا دروازہ پہچان گیا تھا وہ روز گھر سے نکلتا اور بانو کے پاس چلا آتا. بانو اسی کی منتظر ہوتی. ببلو کو

دیکھ کر اسکی ممتا کھل اٹھتی. وہ اسے نہلاتی دھلاتی، کھانا کھلاتی پھر پیار سے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر پھیر کر سلا دیتی.

بات یہیں تک محدود رہتی تو خوب تھا. لیکن ایک دن کے معصوم پیار کی بھنک شیطان کے کانوں میں پڑ گئی. محبت کی شیرنی

میں نفرت کی کڑواہٹ گھلنے لگی.

ایک دن مرید ببلو کو لینے آگیا. گرمی کے خیال سے بانو نے گلی میں کھلتا دروازہ وا کر کے آگے پردہ لٹکایا ہوا تھا.خود وہ نہا کر

نکلی تھی. گیلے بال سکھاتی، بے پرواہ بانو تب چونکی، جب اس نے پردے کے عقب سے مرید کی مکروہ نگاہوں کو دیکھا. وہ

نجانے کب سے وہاں کھڑا اسے تولیے سے بال سکھاتے هوئے دیکھ دیکھ رہا تھا.

مرید ببلو کو لے کر چلا گیا.اور بانو کی پر سکون زندگی میں اضطراب کی لہریں چھوڑ گیا. اب وہ روز ہی ببلو کو لینے آن دھمکتا

تھا. نگاہوں سے کام نہ چلتا تو وہ ایک آدھ معنی خیز فقرہ فضہ میں گند گھولنے کو اچھال دیتا تھا اور موقع ملتا تو بانو کو چھو بھی لیتا تھا

اور بے نیازی سے مڑ جاتا. ماہ بانو شرم اور غصّے سے بپھر کر رہ جاتی لیکن وہ اسے کچھ کہنے سے ڈرتی تھی. ببلو کا باپ

تھا اور بانو ببلو کی محبت میں دیوانی ہو چکی تھی. وہ جس روز اسے نہ دیکھ پاتی اس دن کانٹوں پر لوٹا کرتی تھی. مرید ماہ بانو کی

مجبوری کو سمجھ چکا تھا اور حرام خور گدھ کی طرح اسکے گرد چکر کاٹا کرتا تھا.

شکیل گھر لوٹا تو ماہ بانو مضطرب اور بے کل تھی. دوپہر کا واقعہ اسکی یادداشت سے محو نہ ہو سکا تھا. اسے بار بار اپنی بازو

پر کوئی بچھو سا رینگتا محسوس ہوتا تھا