SIZE
1 / 6

دروازے کی کنڈی بجی تو ببلو پر بے دھیانی میں ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی ماہ بانو چونک اٹھی، اس قدر بھری دوپہر میں نجانے

کون آگیا تھا. وہ غنودگی کے زیر اثر بال سمیٹتی دروازے تک چلی آئی اور کنڈی گرا کر دروازہ کھولا. پھر وہ جھجھک کر پیچھے

ہٹ گئی.

نگاہوں میں ہوس اور ہونٹوں پر بھیگی بھیگی مسکراہٹ سجاتے مرید کھڑا تھا. دروازہ کھلتے اس نے بلا جھجھک چہرہ اندر گھسا

لیا. وہ اسے بےباکی سے تک رہا تھا.

"جج......جی......جی.....وہ گھبرا کر خود میں سمٹنے لگی".

"ببلو؟" وہ مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی.

"پیلے دانت نمایاں ہوگئے." نگاہوں کی ہوس مزید چمکنے لگی.

"ببلو تو سو رہا ہے". وہ آہستگی سے بولی.

"اٹھا کر لے جاؤں".؟ وہ سرگوشی سے بولا.

ماہ بانو نے گھبرا کر سر اٹھایا. نجانے اس نے ببلو کے لئے ہی پوچھا تھا یا......

"مم... میں لا دیتی ہوں". وہ مڑی اور مڑ کر بسٹر تک چلی آئی جہاں دو سالہ ببلو محو خواب تھا. ماہ بانو نے اس کے ماتھے پر سے

بال سمیٹے اور بہت احتیاط سے اسے اٹھایا مبادا اسکی نیند خراب ہو جاتے پھر وہ اسے بانہوں میں بھر کر دروازے تک چلی آئی.

مرید اس اثنا میں اندر آچکا تھا. ماہ بانو نے ببلو کو اسکی طرف بڑھایا. مرید اپنے ہاتھوں کو پہلے ماہ بانو کے بازؤں پر پھیرا پھر

اسکے چونکنے پر جلدی سے ببلو کو تھام لیا.

"ہی ہی ہی....." اس نے بےوجہ ہی دانتوں کی نمائش کی تھی، "بہت محبت ہے تم سے....ہی ہی.....ببلو کو.....رہ نہیں سکتا تمہارے بغیر....ہے نا".

ماہ بانو کچھ نہ بولی. مرید کی ذلیل حرکت نے اس کے اندر چنگاریاں سی بھر دی تھیں. وہ نظروں کو اٹھاتے بغیر خفا خفا تیوروں سے

مرید کے باہر نکلنے کی منتظر تھی.

"اچھا بانو! چلتا ہوں..... کنڈی لگا لے... ہیں!" وہ مسکراتا ہوا باہر نکلا.

اس کے جانے کے بعد ماہ بانو نے کنڈی لگائی اور واپس بسٹر پر لیٹ گئی. کچھ دیر پہلے دوپہر کا کھانا کھانے سے جو نیند کا غلبہ

ہو رہا تھا وہ یک لخت ہی غائب ہو چکا تھا. وہ کروٹیں بدلتی رہی. جانے کیسا تضاد تھا... یہ... جانے قدرت کی ستم ظریفی تھی. وہ ببلو کو

جس قدر چاہتی تھی اسکا باپ مرید اس کے لیے اتنا ہی نہ قابل برداشت ہوتا جا رہا تھا.

مرید کی نظروں کی ہوس ناکی، ہونٹوں کی خبیث مسکراہٹ اور ہاتھوں کی ناپاک عزائم اس کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی.