جب تک داود اور بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آئے ' ماریا کا کام سمٹ چکا تھا . جمیلہ نے ساتھ کپڑے دھونے کی مشین لگا رکھی تھی .
" کتنی دیر ھے جمیلہ ؟"ماریا نے وہیں سے آواز لگائی .
" بس باجی عا ئشہ کا کمرہ صاف کر رہی ہوں ." " ٹھیک ھے ' میری گاڑی آنے والی ہو گی ' تم یہ میز صاف کر کے برتن کچن میں لے جاؤ ' وقت ملے تو ابھی دھو لینا ' ورنہ شام کو آ کر باقی کام کر لینا . "
" باجی ابھی کر لیتی ہوں ' شام کو مجھے اپنی نند کے گھر جانا ھے ."
" داود ' فلیٹ کی ابھی کتنی قسطیں باقی ہیں ؟" ماریا نے اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی تہہ جماتے ہوئے پوچھا .
" اگلے سال فروری تک ختم ہوں گی ' ویسے یار ... وہ میرا دوست ھے نہ عثمان ' وہ اس طرح قسطوں پر گھر یا گاڑی خریدنے کے سخت خلاف ھے ' کافی مولوی قسم کا بندہ ھے ' کہتا ھے کہ اسی لئے تو سود حرام ھے کہ اصل رقم سے کہیں زیادہ سود کی مد میں چلی جاتی ھے اور میں بھی کل حساب کر رہا تھا کہ فلیٹ کی اصل رقم تو ہم تقریبا تین سال پہلے ادا کر چکے ہیں اب تو سود ہی دیے جا رہے ہیں اگر یہی رقم جمع کی ہوتی تو ٹھیک ٹھاک رقم تھی ."
" وہ تو ٹھیک ھے داود لیکن اس طرح بچت کہاں ہو پاتی ھے ... سو طرح کے خرچ نکل آتے ہیں ' آج کل مہنگائی کا طوفان تو دیکھو ...پھر معاشرے میں عزت کی خاطر ' اپنے بچوں کے لئے کہ اپنے دوستوں میں انکی سبکی نہ ہو ، خرچ تو کرنا پڑتا ھے . الله کو سب معلوم ھے ، وہ معاف کرنے والا ھے ."
" افوہ عائشہ ... ! تمہارے بال کیسے ہو رہے ہیں عجیب سے ، اچھی خاصی بڑی ہو گئی ' خیال رکھا کرو اپنا ... میں کل اپنے لئے وقت لے رہی تھی ، تم بھی میرے ساتھ پارلر چلنا ، تمہارے بالوں کو نیا لک چاہیے ."
" اوہ مما ، آپ تو بہت دیر لگائیں گی ، میں بور ہو جاؤں گی ."