ایک بار ایک عورت کے شوہر، بھائی اور بیٹے کو کسی جرم میں پولیس پکڑ کر لے گئی اور جیل میں بند کر دیا گیا . اب وہ عورت روئی پیٹی اور تھانیدار سے درخواست کی کے ان کو چھوڑ دیا جائے . تھانیدار نے فیصلہ کیا کے وہ ان سب میں سے کسی ایک کو چھوڑ دے گا . لہذا اس نے اس عورت سے پوچھا کے بتاؤ کے کس کو چھوڑوں. وہ عورت رونا دھونا چھوڑ کر سوچ میں پر گئی کے کس کا نام لے . آخر کار سوچ بچار کے بعد اس نے اپنے بھائی کا نام لیا کے اسے چھوڑ دیا جائے . اس کی بات سن کر تھانیدار بہت حیران ہوا کے اس نے نہ شوہر کا نام لیا اور نہ ہی بیٹے کا . وجہ پوچھی تو عورت نے جواب دیا کہ زندگی تو پڑی ہے شوہر بھی مل جائے گا اور بیٹا بھی مگر ماں باپ نہیں ہیں تو بھائی نہ ملے گا .
تھانیدار ایک بہن کی بھائی سے محبت دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور اس نے تینوں کو ہی رہا کر دیا . یہ قصّہ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ بھائی کی قدر کی جائے جو کے باپ کی جگہ ہوتا ہے . ہم ساری زندگی شکوے کرتے رہتے ہیں جبکہ بھائی کی تھوڑی سی محبت ہی بہن کے لئے کافی ہوتی ہے تو یہی کہوں گی کہ کے اپنے روٹھے ہویے بہن بھائیوں کو منا لیں اور باقی رشتوں کی وجہ سے ان رشتوں کو خراب نہ کریں .
رشتے تو جہاں نصیب ہو گا ہو گے مگر بہن بھائی نہ ملیں گے . اگر کوئی بھائی بہن سے ناراض ہے تو بہن کو چاہیے کے منا لے کیوںکہ بھائی کے بہن پر بہت احسان ہوتے ہیں. ویسے بھی مرد تو ہر رشتے میں ہی اہم ہوتا ہے . مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے . بھائی کو منانے سے اس کے دل میں بہن کے لئے عزت اور محبت اور بڑھ جاتی ہے .
میں نے تو ایسی بھی بہن دیکھی ہے جس کا بھائی بیمار ہو گیا اور اسکا گردہ فیل ہو گیا تھا تو بہن نے اسے اپنا گردہ دے دیا . کتنی بڑی قربانی ہے . خیر اس طرح کے لوگ تو کم ہی ہوتے ہیں . ایسی بہنیں بھی ہوتی ہیں جو بھائیوں کو جھولی پھیلا پھیلا کر بد دعائیں دیتیں ہیں کیونکہ انکو بھائی کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا اور تحمل مزاج نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں . اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے . وہ کہتے ہیں نہ کہ اتنا میٹھا بھی نہ بنیں کہ کوئی نگل جائے اور اتنا کڑوا بھی نہیں کہ کوئی تھوک ہی دے .