" وہ بیٹا میں سکول کے سامنے سے گزر رہا تھا تو یہ سامنے کھڑا رو ..."
" ابو ! اس کی ماں کا تو سوچتے کتنی پریشان ہنے وہ ." ایاز ہنوز غصّے میں تھا .
" اچھا بیٹا ! اس کی ماں کا خیال ہے جو تین گھنٹے میں ہی پریشان ہو گئی میرا کوئی خیال نہیں جو پچھلے تین مہینے سے اپنے لعل کے بغیر رہ رہی ہوں ."آمینہ بیگم نماز پڑھ رہی تھیں . سلام پھیرتے ہی ایاز کو چمک کر جواب دیا . اب تک جو بچے کی پریشانی کے خیال سے پریشان تھیں ' میاں کا گھگھانا انھیں ذرا بھی پسند نہ آیا جھٹ ان کی مدد کو پہنچیں .
" امی !" ایاز نے دکھ بھرے لہجے میں کہا اور ان سے چمٹ گیا .
"معاف کر دیں امی ' معاف کر دیں ابو ." امتیاز صاحب نے جھٹ گلے سے لگایا آمینہ بیگم بیٹے کو کھانا کھلانے لگیں .
" بیٹا یہ دیکھو تمہارے کرتے کاڑھے ہیں ." آمینہ بیگم نے سفید کرتے دیکھاۓ' جن پر سفید دھاگے سے ہی چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہویے تھے .
' چلو جلدی سے یہ پنٹ شرٹ اتارو اور یا کرتا پہن کر دکھاؤ ." آمینہ بیگم نے ہینگر میں لٹکا ہوا سوٹ اس کے آگے کیا .
" یا امی ! ذرا ایک فون کر لوں ." ایاز نے برآمدے کی طرف قدم بڑھاہے . موبائل نکالا اور نمبر نکالا .