" پلاؤ ' دہی ' پودینے کا رائتہ ' سلاد اور آلو کے بنے کباب اور وہ بھی سب ہو بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا اور اگا ہوا . واہ بھئی واہ !" امتیاز صاحب کھاتے ہویے تعریفیں بھی کرتے جاتے . آمینہ بیگم کم ہی تردد کرتیں ہاں مگر جب ایاز اور حسن آتے تو دستر خوان بھر دیتیں . ساتھ ساتھ حسن اپنے سکول کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتاتا جاتا .
" ایاز کو بتا دیا تھا نا کہ حسن کو لی جا رہا ہوں ." آمینہ بیگم نے کھانے کے دوران پوچھا .
" نہیں تو " امتیاز صاحب نے جواب دیا .
" کیا ؟" آمینہ بیگم کا کھاتا ہوا ہاتھ روک گیا .
" بہت برا کیا آپ نے ." آمینہ بیگم کو حد درجہ ملال ہوا .
" جب میں سکول پہنچا تو سب بچے جا چکے تھے ' حسن اکیلا چوکیدار کے ساتھ کھڑا رو رہا تھا ' مجھے دیکھتے ہی وہ بھی سلام کر کے بھگ نکلا ." امتیاز صاحب نے تفصیلاً بتایا .
" اب بتاؤ بچے کو گھر لی آتا یہ ایاز کو بتانے جاتا اسکی دکان پر ." امتیاز صاحب نے شکوہ کیا .
" ہاں ... مگر ... کسی طرح اطلا ع تو کر دیتے نہ ' میرا بچا پریشان ہو رہا ہو گا ." آمینہ بیگم نے کچھ کچھ متفق ہو کر کہا .
" آرام کر کے جاتا ہوں پھر بتا دوں گا ." امتیاز صاحب نے حسن کو بازو پر لٹایا اور کہانیاں سنانے لگے .
" جب تک ساتھ تھے کبھی یہ مسلہ نہ ہوا ' اور اب میرا بچہ پریشان ہوتا پھرتا ہے ." آمینہ بیگم نے خود کلامی کی .