SIZE
3 / 10

مریم گھر میں ہی اپنی بے بے کے پاس سپارہ پڑھتی تھی اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹا تی تھی . میاں جی کھیتوں میں بیلوں سے ہل چلواتے تھے ' کنویں سے پانی نکلواتے تھے اور بیلوں کی خوب سیوا بھی کرتے تھے . انھیں دیسی گھی بھی کھلاتے تھے . یہ مارنے والے بیل تھے اس لئے میا جی کے علاوہ انھیں کوئی نہیں پکڑ سکتا

تھا .

ایک بار میاں جی کسی کام سے شہر گئے تو پیچھے سے ایک بیل نے رسی تڑوا لی . بیل وہ گاؤں کی گلیوں میں بھاگتا پھرتا رہا اور لوگ ڈر کے مارے گھروں میں بند ہو گئے کسی میں اتنی ہمّت نہ ہوئی کے بیل کو آگے بڑھ کر پکڑ لیتا . بیل سارا دن گھومتا پھرتا رہا اور پھر جب تھک کر اپنے گھر کی طرف آیا تو اسی وقت میاں جی بھی آ گئے . انہوں نے اسے تھپکا اور ساتھ میں بولا کے مارتے نہیں ہیں . بیل نے سر جھکایا جیسے شرمندہ ہو اور میاں جی کی زبان سمجھتا ہو . میاں جی کہتے تھے کے جانور سب سمجھتے ہیں بس بول نہیں سکتے .

میاں جی نماز ہمیشہ مسجد میں پڑھتے تھے . بے بے جی بھی نماز بہت پابندی سے پڑھتی تھیں . مریم نے ہمیشہ اپنے والدین کو اچھے کام کرتے ہوئے دیکھا . میاں جی تو اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور ہر اچھے برے وقت میں ان کے کام آتے تھے .میاں جی کی زمینوں پر امردوں کے باغ بھی تھے اور انکی رکھوالی بھی کرنی پڑتی تھی ورنہ پرندے خراب کر دیا کرتے تھے .یوسف سکول سے آنے کے بعد باغ میں رکھوالی کے لئے جاتا تھا . اس نے اپنے پاس پٹاخے بھی رکھے ہوئے تھے جو وہ پرندوں کو ڈرانے کے لئے استعمال کرتا تھا . کبھی کبھی تو گاؤں کے لڑکے اور لڑکیاں چوری چوری باغ میں امرود توڑنے آتے تھے ' پٹاخے کی آواز سن کر بھگ جایا کرتے تھے اور یوسف بہت خوش ہوتا تھا . ایک بار یوسف کے چچا اور خالہ کی لڑکیاں امرود توڑنے آ گئیں . انہوں نے کافی امرود توڑے مگر جب پٹاخے کی آواز سنی تو ڈر کر بھاگیں . سارے امرود ادھر ادھر بکھر گئے . انہوں نے گھر آ کر سکون کا سانس لیا اور یوسف کی شکایات بھی کی کے اسکی وجہ سے سب امرود بکھر گئے اور وہ ڈر بھی گئیں . یوسف نے کہا کے چوری کرنا بری بات ہے تمہیں چاہیے تھا کے پوچھ کر لیتیں . سب کزنوں نے اسے کنجوس سے سڑیل کہنا شروع کر دیا .

" وہ تو میں ہوں ." یوسف ہنس کر بولا .