SIZE
5 / 5

ایک رات سوتے میں سکینہ بستر سے گر گئی چونکہ وہ بیمار تھی . اس حادثے میں اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی . اس حادثے کے بعد سکینہ مسلسل بیمار رہنے لگی اور ایک دن رحیم کی نیک شریک حیات اسے چھوڑ کر چلی گئی . اس کے بچے اسے اسکی آخری آرام گاہ تک چھوڑ آئے.

اب رحیم تنہا رہ گیا وہ سکینہ کو بہت یاد کرتا تھا کیونکہ وہ اس کے سکھ دکھ کی ساتھ تھی . وہ کہتا تھا کہ سکینہ بہت صبر والی عورت تھی بہرحال وقت اپنی روانی میں گزرتا گیا . رحیم اپنے پوتے پوتیوں میں بہت خوش تھا اسے ملنے ملانے کا بہت شوق تھا . وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے ملتا رہتا تھا . سکینہ کی وفات کے بعد رحیم سندھ چھوڑ کر پنجاب چلا گیا. وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہنے لگا اور اسکا دل بھی اب وہیں لگتا تھا کہیں اور نہیں .کہیں جاتا تو ایک ہفتے کے اندر واپس آ جاتا . رحیم گھٹنوں کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے لگا .

کھیل کے بارے میں کوئی بھی بات وہ بہت دلچسپی سے سنتا تھا . اسکی چھوٹی بیٹی بھی باپ کی طرح کھیلوں کی شوقین تھی بہت سے کھیلوں میں حصّہ بھی لیتی تھی . اس بات پہ وہ بہت خوش تھا . وہ اپنے زندگی کے کھیلوں کے واقعات بہت شوق سے دوسروں کو سناتا تھا . وہ بہت مہمان نواز تھا جب بھی اس سے کوئی ملتا تھا تو اس کی خوب مہمان نوازی کرتا تھا . بہت صبر و تحمل والا انسان تھا . اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کی یاداشت بہت کمزور ہو گئی تھی وہ اکثر باتیں بھول جایا کرتا تھا .

جو مل جاتا تھا اس پر الله کا شکر ادا کرتا تھا . اگر کوئی مل لیتا تو اس سے اچھے سے ملتا اور اگر کوئی نہ ملتا تو بھی کوئی گلہ نہ کرتا . وہ بہت ملنسار تھا اور لوگ اسی وجہ سے اس سے ملنے اتے تھے . وہ اپنے بیٹے اور بہو سے بہت خوش تھا . اسکی طبیعت بہت خراب رہنے لگی . اسکی خراب طبیعت کا سن کر اسکے بچے اس سے ملنے آ گئے .اور ایک صبح فجر کے وقت رحیم الله کو پیارا ہو گیا . سب سے آخر میں اسکی سب سے چھوٹی بیٹی اپنے بچوں کے ساتھ پہنچی جس کا انتظار تھا . رحیم کو دفنا دیا گیا اور یوں ہر لحاظ سے ایک بہترین انسان دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور بہت سے لوگوں کو سوگوار چھوڑ گیا . اس کے جاننے والے آج بھی اسکی مثالیں دیتے ہیں .

(بنت گوھر)