" اچھا ہے، اگلی دنیا کے لیے پریکٹس ہو جائے گی تیری۔"بتولاں بی بی کو اس جواب نے بد مزہ نہیں کیا۔
" کیا ہے' کیوں بلا رہی ہو؟"
" نی بیٹھ ادھر' کج مشورہ کرنا ہے تجھ سے۔
" مشورہ اور مجھ سے۔ اللہ خیر کرے۔" وہ بڑبڑا کر بیٹھ تو گئی لیکن کان کھڑے ہو گئے تھے۔
"تیری پھپھی ساس انوری کی بیٹی ستارہ کی شادی بربادی ہو رہی ہے۔ بلایا ہے ہم سب کو۔ انوری اپنی واری دے چکی ہے' تیری شادی پر وہ جو کام والے چار جوڑے تھے نا۔ وہ اسی کی طرف سے تھے اور یہ انگوٹھی جس پر نیلا نگ لگا ہوا تھا وہ بھی اسی نے دی تھی۔
" اچھا تو اب فیر میں کیا کروں؟"
" ایں کیا کروں' نی کسے پاگل دی اولاد' بدلے میں تجھے بھی تو اب یہ سب بلکہ اس سے بڑھ کر دینا ہے۔"
"ناں میں کوئی کمائیاں کرنے نکلتی ہوں۔ کہو اپنے پترسے' لا کر رکھے پیسے تمہارے ہاتھ پر۔"
" میں جو کماتا ہوں اماں ! تمہارے ہی ہاتھ پر رکھتا ہوں۔"
" ہاں ۔ ٹھیک کہہ رہا ہے میرا گھر والا ۔ ہم میاں بیوی تواپنا کما کر بھی فقیر کے فقیر رہتے ہیں' سب کچھ یہ تمہیں لا پکڑاتا ہے۔"
بتولاں بی بی نے ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ اچھا بھلا خرچا آ گیا تھا سر پر۔ بتولاں بی بی کو جب کچھ نہیں سوجھا تو کالا ڈوپٹہ سر پر باندھ کر لیٹ گئی۔
" ہائے ہائے اماں ! اتنے شوق سے ساگ پکوایا ہے۔ روٹی تو کھا لے۔" ڈیڑھ گھنٹے بعد ثریا نے آ کر کندھا ہلایا۔
" ہن کتھے دا ساگ' سوچوں نے مار دیا ہے مجھے۔ "
"اماں! اٹھ تو ۔" اکلوتی بہو نور جہاں بھی چلی آئی اور آ کر بستر پر اس کے قریب ٹک گئی۔
" برادری میں بڑی تھو تھو ہو گی نوری میری تو۔ " آواز بھرا گئی۔
" ایسے ہی تھو تھو ہو گی۔ میں سوچ رہی تھی پچھلے سال میری خالہ دبئی سے میرے لیے جوڑے لے کر آئی تھی۔ وہ ویسے کے ویسے ہی رکھے ہیں۔ ہم تارہ کو دے دیں گے اور رہی بات سونے کی انگوٹھی کی' وہی پھپھی کی دی ہوئی انگوٹھی میں کچھ پیسے ملا کر ٹاپس بنوا لیتے ہیں۔ نگ موتی زیادہ لگوا لیں گے تو بھاری لگیں گے۔