SIZE
1 / 14

آج کا دن بڑا منحوس تھا۔ یہی کوئی صبح کے آٹھ بجے کاکا سیڑھیوں سے گر کر ناک زخمی کر بیٹھا حالانکہ بتولاں بی بی نے کہا بھی تھا منجی (چارپائی) پر بستر رکھ کر سیڑھیاں نہ اتر' اگر گیا تو ہڈی تڑخ جائے گی۔ شکر ہے کہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری نہیں ہوئی۔ بات ناک زخمی ہونے پر ہی ٹل گئی۔ ویسے اب خربوزے جیسے گول چہرے پر گیند نما سوجی ہوئی سرخ ناک خوب پھب رہی تھی۔

ثریا اور نازی نے تو خوب قہقہے لگائے جس پر بتولاں بی بی نے آگ بگولا ہو کر لعنتیں بھی خوب ہی ڈالیں اور اطلاع دی کہ دنیا میں ایسی سنگ دل بہنیں اور کہیں نہیں پائی جاتیں۔

اچھا یہ تو صبح آٹھ بجے کا واقعہ تھا دوپہر بارہ بجے جب بہو بیگم نور جہاں صاحبہ جنہیں بتولاں بی بی نے فضول جہاں کا خطاب عطا کر رکھا تھا۔ اچانک کرنٹ کھا کر نیچے بے ہوش ہو گئیں۔

" آئے ہائے ! آج تو میں نے اسے ساگ پکانے کو کہا تھا۔ آدھا تو یہ کاٹ بھی چکی تھی۔ اب کون پکائے گا؟ منحوس ماری مرن جوگی تو آج سارا دن بستر سنبھالے گی۔ ننھی سی جان' کیسے کیسے روگ۔ ہک ہا! ساگ کا سواد بھی نصیب میں نہیں۔"

دن کے ایک بجے جب ثریا ماں سے پوچھ رہی تھی۔ " اماں اگر بھابھی آج کرنٹ لگنے سے مرجائی تو پھر ہم رشید بھائی کی دوسری شادی چاچے اصغر کی شمو سے کرتے یا خالہ اختری کی صفو ٹھیک رہتی؟" اماں کے جواب سے پہلے دروازے کی گھنٹی بج اٹھی اور پوسٹ مین ایک لفافہ دے کر رخصت ہوا۔

لفافہ کھولتے ہی کارڈ پر نظر پڑی۔ عبارت ثریا نے پڑھ کر سنا دی ۔ یہ شادی خانہ آبادی کا کارڈ تھا۔ شادی بھی کس کی؟ پھپھی انوری کی بیٹی تارو کی۔

" آئے ہائے آج کا دن ہی منحوس ہے۔" تب ہی بتولاں بی بی نے دانت پیس کر یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا۔

" دفع دور' ہم نے نہیں جانا تارو کی شادی میں۔ " نازی نے بھی ناک چڑھا کر اعلان کیا تھا۔ کاکا بھی سوجی ناک پر اپنی بیوی نور جہاں کا دوپٹہ رکھے باہر آ گیا۔